Monday 23 August 2021

سیارے پر بہت ہی سخت دن آئے ہوئے ہیں

فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِی الْأَبْصَارِ


سیارے پر بہت ہی سخت دن آئے ہوئے ہیں

خواب بچے ہیں

ڈرے سہمے گھنی پلکوں کے پیچھے

چھپ کے بیٹھے ہیں

ذرا جُنبش نہیں کرتے

بہت سی ان کہی نظمیں ہراساں ہیں

کسے معلوم

وحشت کا بٹن کس ہاتھ سے کس وقت دب جائے

تو سب جائے

تمہاری ساختہ بے ساختہ ناراضیاں، خوشیاں

مِری نظمیں

ملاقاتیں، جو ہونی ہیں ابھی

پیمان، جو بالکل ابھی باندھے گئے ہیں

سب اجڑ جائیں

کسی بے حد محبت خیز ساعت میں کوئی کہنے ہی والا ہو

سنو! تم جان ہو میری

ابھی جملہ مکمل بھی نہ ہو پائے

اچانک ہی دھماکہ ہو

تو سب کچھ راکھ بن جائے

کسی بچے کا مکتب کی طرف بڑھتا ہوا پہلا قدم اٹھنے نہ پایا ہو

کہ دھرتی ریت بن جائے

مسافر مُدتوں کے بعد گھر کی سمت چلتا ہو

مسافت ہی بدل جائے

تو کیا اس موت کا تاوان کوئی بھر سکے گا کیا

کسے معلوم ہے آخر

انہی بحثوں، انہی سرگوشیوں اندر تصادم کی گھڑی کس وقت آ جائے

صدا آئے

اَلَا یَا اَیُّھا التحقیر

اپنے جوش کو بھگتو

چکھو وہ ذائقہ جس کی ہنسی مل کر اڑاتے تھے

سیارے پر بُرے دن ہیں

مگر پھر بھی ان ایامِ حوادث میں

مجھے تم سے، تمہاری جھلملاتی نور آنکھوں

اور اپنی نظم سے امید کی خوشبو بھی آتی ہے

سو میں اس بیش قیمت ساعتِ امروز میں یہ تم سے کہتا ہوں

سنو

مایوس مت ہونا

کہ جب تک ایک بھی مسکان زندہ ہے

دمِ رحمان زندہ ہے

ابھی انسان زندہ ہے


علی زریون

No comments:

Post a Comment