میں نے چاہت کے گیت گائے تھے
سننے والے مگر پرائے تھے
عمر بھر کو خوشی کا روگ لگا
ایک دو دن کو مسکرائے تھے
راحتیں ہی نہ کر سکے حاصل
راحتوں کے محل بنائے تھے
کس نے کھینچیں جفا کی تلواریں
کس نے ارماں کے خوں بہائے تھے
بہہ رہی ہیں نشاط کی ندیاں
کیا اشارے تھے کیا کنائے تھے
میں نے چاہت کے آسماں پر دوست
چاند تاروں کے دف بجائے تھے
ہائے وہ دن جو تیرے ساتھ گئے
نغمہ و نور میں نہائے تھے
دور آفریدی
No comments:
Post a Comment