ہاتھ کب اپنے لگا میں
عمر بھر چھپتا پھرا میں
انتظار اپنا رہا ہے
جاگتا شب بھر رہا میں
چھپ نہ پاؤ گے کہیں بھی
چار سو ہوں جا بجا میں
منتظر ہوں اک نظر کا
سامنے لکھا ہوا میں
وہ اشارہ کر رہا تھا
دیکھتا پھر کیا بھلا میں
اعتراض اس کو یہی ہے
کس لیے ہوں بولتا میں
تجھ کو جاتا دیکھتا ہوں
اپنے ملبے پر کھڑا میں
دو قدم چل کر دکھا دے
تیرا دیکھوں حوصلہ میں
وہ دلاسا دے رہا تھا
کیسے آنسو روکتا میں
ہاتھ دیکھا جل گیا نا
تُو نے سمجھا جل بجھا میں
تجھ کو چلنا آ گیا ہے
راستے میں ہوں بچھا میں
اب اجازت چاہتا ہوں
شب بخیر افضل چلا میں
افضل سراج
No comments:
Post a Comment