Saturday, 21 August 2021

ہاتھ کب اپنے لگا میں

 ہاتھ کب اپنے لگا میں

عمر بھر چھپتا پھرا میں

انتظار اپنا رہا ہے

جاگتا شب بھر رہا میں

چھپ نہ پاؤ گے کہیں بھی

چار سو ہوں جا بجا میں

منتظر ہوں اک نظر کا

سامنے لکھا ہوا میں

وہ اشارہ کر رہا تھا

دیکھتا پھر کیا بھلا میں

اعتراض اس کو یہی ہے

کس لیے ہوں بولتا میں

تجھ کو جاتا دیکھتا ہوں

اپنے ملبے پر کھڑا میں

دو قدم چل کر دکھا دے

تیرا دیکھوں حوصلہ میں

وہ دلاسا دے رہا تھا

کیسے آنسو روکتا میں

ہاتھ دیکھا جل گیا نا

تُو نے سمجھا جل بجھا میں

تجھ کو چلنا آ گیا ہے

راستے میں ہوں بچھا میں

اب اجازت چاہتا ہوں

شب بخیر افضل چلا میں


افضل سراج

No comments:

Post a Comment