Saturday, 21 August 2021

دیا دل مجھ کو تو نے اور دل کو کامرانی دی

 دیا دل مجھ کو تُو نے اور دل کو کامرانی دی

کروں میں ناز جس پر تُو نے ایسی زندگانی دی

تِری فیاضیاں ہیں موج اندر موج کیا کہنا

طبیعت دی طبیعت میں سمندر کی روانی دی

تفکر کے لیے کیا کیا جنوں انگیزیاں بخشی

تخیل کے لیے کیسی فضائے لامکانی دی

تمنائیں تمنائی کہ پھولوں کی طرح کھِلتے

جوانی اور وہ بھی کس قدر رنگیں جوانی دی

سکھائے میری وحشت کو سبق آداب وحشت کے

برنگِ لالہ و گُل داغِ دل کو خونچکانی دی

کبھی میری زباں کو خامشی کا حکم فرمایا

کبھی محفل میں مجھ کو جرأتِ رنگیں بیانی دی

لقب بخشا گیا مجھ کو امینِ رازِ فطرت کا

ستاروں کی خموشی دی گُلوں کی بے زبانی دی

دیا موقع نہ ہرگز تشنہ کامی کی شکایت کا

مجھے ساغر بہ ساغر دی، پرانی سے پرانی دی

مِری بربادیوں پر نظمِ عالم کی بنا رکھی

نویدِ زندگانی موت کی گویا زبانی دی

مِری خاموشیاں شمعِ ازل کی ترجماں ٹھہری

زباں دی عشق کو لیکن بہ مشکل بے زبانی دی

غم و درد و الم دے کر مجھے کیا کیا شرف بخشا

نہیں شکوہ کسی کو گر خموشی شادمانی دی

کرم تیرا کہ؛ کُنتُم خَیرَا اُمَّت کا دیا رتبہ

عطا تیری کہ مسلم کو حرم کی پاسبانی دی


مسلم مالیگانوی

No comments:

Post a Comment