Saturday 21 August 2021

پل بھر میں برسوں کا رشتہ توڑ دیا

 پل بھر میں برسوں کا رشتہ توڑ دیا 

پتھر دل نے آخر شیشہ توڑ دیا 

دیکھ کے اس کو پھِر دانستہ دیکھ لیا

اک لغزش نے میرا روزہ توڑ دیا

شاید اس کی فطری غیرت جاگ اٹھے

ہم نے  اک سائل کا کاسہ توڑ دیا

جھوٹ میں آخر اِتنی طاقت کیوں آئی

اک ساعت کو سچ کا لہجہ توڑ دیا

اپنی اس جُرأت پر حیرت ہے مجھ کو

خواب میں میں نے تجھ سے رشتہ توڑ دیا

 

رئیس صدیقی

No comments:

Post a Comment