پل بھر میں برسوں کا رشتہ توڑ دیا
پتھر دل نے آخر شیشہ توڑ دیا
دیکھ کے اس کو پھِر دانستہ دیکھ لیا
اک لغزش نے میرا روزہ توڑ دیا
شاید اس کی فطری غیرت جاگ اٹھے
ہم نے اک سائل کا کاسہ توڑ دیا
جھوٹ میں آخر اِتنی طاقت کیوں آئی
اک ساعت کو سچ کا لہجہ توڑ دیا
اپنی اس جُرأت پر حیرت ہے مجھ کو
خواب میں میں نے تجھ سے رشتہ توڑ دیا
رئیس صدیقی
No comments:
Post a Comment