Saturday, 21 August 2021

کھوئے ہوئے پلوں کی کوئی بات بھی تو ہو

 کھوئے ہوئے پلوں کی کوئی بات بھی تو ہو

وہ مل گیا ہے اس سے ملاقات بھی تو ہو

برباد میں ہُوا، تو یہ بولا امیرِ شہر

کافی نہیں ہے اتنا، فنا ذات بھی تو ہو

دنیا کی مجھ پہ لاکھ نوازش سہی مگر

میری ترقیوں میں ترا ہات بھی تو ہو

ملتی ہیں گور یاں تو سرِ راہ بھی مگر

پنگھٹ ہو گاگری ہو وہ دیہات بھی تو ہو

ہارے تو لازماً اسے کوئی پناہ دے

ہم سے لڑے جو اس کی یہ اوقات بھی تو ہو

کٹتی ہے شب وصال کی پلکیں جھپکتے ہی

جس کی صبح نہ ہو کبھی وہ رات بھی تو ہو

لفظوں کے ہیر پھیر سے بنتی نہیں غزل

شعروں میں تھوڑی گرمئ جذبات بھی تو ہو


حسنین عاقب

No comments:

Post a Comment