نگاہ اُٹھا کے وہ محفل میں جب سلام کرے
ہوش والوں کی مدہوشی کا انتظام کرے
ہر ایک شخص کو نِسبت بتانی پڑتی ہے
کون پاگل تمہارے شہر میں قیام کرے
ایک خواہش ہے میرے دل میں کہ وہ مہ جبیں
ملا کے نظر کبھی مجھ سے بھی کلام کرے
وہ رُخ سے زُلفیں ہٹا لے تو روشنی پھُوٹے
رُخ پہ ڈالے اگر زُلفیں تو دن کو شام کرے
خیالِ یار سے اک پَل بھی جب نہیں غافل
کوئی دیوانہ بھلا کس پہر آرام کرے
آصف میؤ
No comments:
Post a Comment