Friday 27 August 2021

لباس امن میں شاہیں کو فاختہ نہ سمجھ

 لباسِ امن میں شاہیں کو فاختہ نہ سمجھ

شریف زادوں کو اتنا بھی نا رسا نہ سمجھ

جو حرفِ حق تھا تِرے منہ پہ برملا ہے کہا

مِری بلا سے اسے حرفِ باغیانہ سمجھ

تِری شکست میں ممکن ہے تیرا حصہ ہو

تُو اپنے آپ کو اس درجہ بے خطا نہ سمجھ

دلوں کے ٹوٹنے جُڑنے کی سن صداؤں کو

روا روی میں ہر اک چیز کو روا نہ سمجھ

یہ نارسائی بھی بنتی ہے ایک وجہ کبھی

تُو پارساؤں کو اتنا بھی پارسا نہ سمجھ

گھروندہ زیست کا ٹھہرا ہے عارضی ثاقب

اسے بس ایک ہی آندھی تک آشیانہ سمجھ


منظور ثاقب

No comments:

Post a Comment