مجھے کچھ اور بھی تپتا سلگتا چھوڑ جاتا ہے
سحاب اکثر میرے سینے پہ دریا چھوڑ جاتا ہے
وہی اک رائیگاں لمحہ کہ میں جس کا شناور ہوں
نگاہوں میں مِری شہرِ تماشا چھوڑ جاتا ہے
گزرتا ہے جس آئینے سے بھی موسم شراروں کا
چمن کو ساتھ لے جاتا ہے صحرا چھوڑ جاتا ہے
نواح دشت میں خوش منظری تقسیم کرتا ہے
وہ بادل جو مِری بستی کو پیاسا چھوڑ جاتا ہے
مِرے کمرے کی دیواروں میں ایسے آئینے بھی ہیں
کہ جن کے پاس ہر شخص اپنا چہرا چھوڑ جاتا ہے
وہ میرے راز مجھ میں چاہتا ہے منکشف کرنا
مجھے میرے گھنے سائے میں تنہا چھوڑ جاتا ہے
عجب شعلہ ہے عشرت اس کا لمس بے نہایت بھی
مِرے چاروں طرف جو اک اجالا چھوڑ جاتا ہے
عشرت ظفر
No comments:
Post a Comment