Thursday 26 August 2021

مجھے کچھ اور بھی تپتا سلگتا چھوڑ جاتا ہے

 مجھے کچھ اور بھی تپتا سلگتا چھوڑ جاتا ہے

سحاب اکثر میرے سینے پہ دریا چھوڑ جاتا ہے

وہی اک رائیگاں لمحہ کہ میں جس کا شناور ہوں

نگاہوں میں مِری شہرِ تماشا چھوڑ جاتا ہے

گزرتا ہے جس آئینے سے بھی موسم شراروں کا

چمن کو ساتھ لے جاتا ہے صحرا چھوڑ جاتا ہے

نواح دشت میں خوش منظری تقسیم کرتا ہے

وہ بادل جو مِری بستی کو پیاسا چھوڑ جاتا ہے

مِرے کمرے کی دیواروں میں ایسے آئینے بھی ہیں

کہ جن کے پاس ہر شخص اپنا چہرا چھوڑ جاتا ہے

وہ میرے راز مجھ میں چاہتا ہے منکشف کرنا

مجھے میرے گھنے سائے میں تنہا چھوڑ جاتا ہے

عجب شعلہ ہے عشرت اس کا لمس بے نہایت بھی

مِرے چاروں طرف جو اک اجالا چھوڑ جاتا ہے


عشرت ظفر

No comments:

Post a Comment