صبر اور ضبط کی دیوار اٹھائی جائے
سینہ دُکھتا ہے دُکھے، آہ دبائی جائے
فکر کے بیج سے اب پُھوٹے عمل کی کونپل
فلسفے تک نہ رہے بات، نبھائی جائے
یا تو وعدہ نہ کرو، کر لو تو پھر یاد رکھو
جان جائے کہ رہے، بات نبھائی جائے
اک زمانے سے، وطن میں یہ چلن ہے کاشف
حق کی آواز جو اٹھے، تو دبائی جائے
سید کاشف
No comments:
Post a Comment