ہے شہرِ خموشاں کی جائے مِرا دل
تو کیا سوچ کر مسکرائے مرا دل
جدا ہو گئے ہم جو اک دوسرے سے
ہوا کتنا مجبور ہائے مرا دل
محبت کی قسمت میں رُسوائیاں ہیں
کسے قصۂ غم سنائے مرا دل
کوئی بات ایسی نہ کرنا کبھی تم
کہ برسوں مجھے پھر رُلائے مرا دل
مِرا گلشنِ دل ہے ویران کب سے
تبسم، نے لب پہ کھلائے مرا دل
فقط، مٹھی بھر گوشت کا لوتھڑا یہ
مگر، سب کو پاگل بنائے مرا دل
کسی آئینے کی طرح خوب، انجم
ہر اک میری حسرت دُکھائے مرا دل
فریدہ انجم
No comments:
Post a Comment