Tuesday 24 August 2021

دو جھکی آنکھوں کا پہنچا جب مرے دل کو سلام

 دو جُھکی آنکھوں کا پہنچا جب مِرے دل کو سلام

یوں لگا ہے دوپہر میں جیسے در آئی ہو شام

اس کے ہونٹوں کا کیا جب ذکر میرے شعر نے

ہر سماعت کے لبوں سے جا لگا لبریز جام

جیسے سجدے میں کوئی گر کر نہ اٹھے دیر تک

یوں گری آنکھوں پہ پلکیں سن کے اک کافر کا نام

دُکھ کسی کا ہو اسے دھڑکن میں اپنی سینچ لے

کس نے سونپا ہے مِرے دل کو یہ پاگل پن کا کام

اب تو جی میں ہے کہ ہر دُکھ پر لگاؤں قہقہہ

ہو گئی ہیں شہر میں آنسو بھری آنکھیں تو عام

حرف جیسے ہو گئے سارے منافق ایک دم

کون سے لفظوں میں سمجھاؤں تمہیں دل کا پیام

اس قدر جلدی بھی کیا شہزاد تھی آخر بتا

کیا بگڑتا ساتھ گر تُو اور چلتا چند گام


فرحت شہزاد

No comments:

Post a Comment