قدم رکھ دیا ہم نے راہِ وفا پر
اسے پا لیا ہم نے سب کچھ بھلا کر
یہ احساس ہے صبر کرنے کو کافی
کہ کچھ تو ملا ہے ہمیں کچھ گنوا کر
کہاں جاتے ہیں یہ چلے جانے والے
بتاؤ تو پوچھیں کہاں کس سے جا کر
کبھی یاد آئے تو ہم دیکھتے ہیں
تصور میں تصویر بس اس کی لا کر
بہار آتی ہے بعد ہر خزاں کے
گلستاں میں بلبل یہ کہتی ہے گا کر
نہیں ہو گی محسوس کچھ بھی مسافت
چلو گے قدم جو قدم سے ملا کر
صبیحہ رہے مسکراہٹ لبوں پر
کریں کیوں پریشاں انہیں غم سنا کر
صبیحہ خان
No comments:
Post a Comment