Saturday 21 August 2021

بلوریں عکس تمہارا دکھا رہا ہے مجھے

بلوریں عکس تمہارا دکھا رہا ہے مجھے

کئی دنوں سے یہ دریا بُلا رہا ہے مجھے

مِری اُداسی کے پنچھی بتا رہے ہیں

کہیں اکیلے بیٹھ کے وہ گُنگنا رہا ہے مجھے

میں کوئی قرض ہوں کاندھوں پہ وقت کے شاید

کہ لمحہ لمحہ مسلسل چکا رہا ہے مجھے

قدم قدم وہ گلاب و ثمن سمیٹے گئی

یہ زرد پیڑ کا سایا بتا رہا ہے مجھے

یوں مٹھیوں میں بھرے دھوپ، کچھ بتا تو سہی

تو خود کو پیڑ، یا سایا بنا رہا ہے مجھے

میں جا کے کون سی چٹان پہ یہ سر پٹخوں

کہ خود سے شور سمندر کا آ رہا مجھے


رضوان فاخر 

No comments:

Post a Comment