Saturday, 21 August 2021

بیلیا دل میں یاد رچی ہے، ماتھے پہ یکتائی ہے

 بیلیا! دل میں یاد رچی ہے، ماتھے پہ یکتائی ہے

دل میں وِرد چلا ہے ہُو کا وِرد بھی جو مولائی ہے

ہجر کی چوٹ سے زیادہ گہرا اس ہجرت کا گھاؤ ہے

ایک تو صدیوں بوڑھا گاؤں، اوپر سے آبائی ہے

عشق کی تیز اگن میں جلتا نہر کنارے بیٹھا چاند

جس کے ماتھے پر لکھا ہے؛ حسن بڑا ہرجائی ہے

یار! وہ ایسا پھول کھلا ہے گلشن کا اعجازوں میں

رنگ برنگی تتلی دیکھ کے کلمہ پڑھنے آئی ہے

دیکھ خدا خود داد کو لے کر دل کے عرش پہ اُترا ہے

اک جوگن نے اک جوگی سی ایسی پریت نبھائی ہے

وہ بولے تو شعر سخن سب اس کو سجدہ کرتے ہیں

اس نے باتوں باتوں میں جنگل میں آگ لگائی ہے

ہونٹوں کے مُسکاتے جگنو آنکھ میں جھلمل کرتے ہیں

آنکھ میں شاید اشک نہیں ہیں، شبنم ہے، پروائی ہے

اس کی اکھیّن دیکھن خاطر دیوتا پربت اُترے ہیں

اس نے مُڑ کے دیکھا تو پھر جان پہ بن بن آئی ہے

اس کی کمر پہ انگلی سے یہ شاعر غزلیں لکھتا ہے

ایک تو ندیا آنکھ کے جیسی، اوپر سے بل کھائی ہے

اس کے تن کی چنگاری سے جھیلیں دِیپ جلاتی ہیں

آج زمیں کی آنکھیں چومو چاند کی منہ دکھلائی ہے

سانوری خالی مٹکا لے کر کیوں پنگھٹ پہ بیٹھی ہو

دیکھ ہماری نیند فلک سے تارے توڑ کے لائی ہے

بند کمرے کے ہر کونے میں وحشت وحشت لکھتا ہوں

اک تو تیری یاد آوارہ، اس پر یہ تنہائی ہے

یار! امیر کا کیا پوچھو ہو، اک دیوانہ شاعر ہے

ایک تو قیس سا دکھتا ہے اور اوپر سے صحرائی ہے


امیر سخن

No comments:

Post a Comment