یہاں وہاں کی بلندی میں شان تھوڑی ہے
پہاڑ کچھ بھی سہی، آسمان تھوڑی ہے
مِرے وجود سے کم تیری جان تھوڑی ہے
فساد تیرے مِرے درمیان تھوڑی ہے
ملے بنا کوئی رُت ہم سے جا نہیں سکتی
ہمارے سر پہ کوئی سائبان تھوڑی ہے
یہ واقعہ ہے کہ دشمن سے مل گئے ہیں دوست
مِرا بیان، برائے بیان تھوڑی ہے
کرم ہے مجھ پہ کسی اور کے جلانے کو
وہ شخص مجھ پہ کوئی مہربان تھوڑی ہے
وہ ہم خیال ہے اسلوب اس کا جو بھی ہو
رقیب ہی تو ہے چنگیز خان تھوڑی ہے
شجاع شاعری ہوتی ہے ذات کے بل پر
مِری کمک پہ کوئی خاندان تھوڑی ہے
شجاع خاور
No comments:
Post a Comment