جاؤ، ماتم گزارو! جانے دو
جس کا غم ہے اسے منانے دو
بیچ سے ایک داستاں ٹوٹی
اور پھر بن گئے فسانے دو
ہم فقیروں کو کچھ تو دو صاحب
کچھ نہیں دے سکو تو طعنے دو
جاؤ، ماتم گزارو! جانے دو
جس کا غم ہے اسے منانے دو
بیچ سے ایک داستاں ٹوٹی
اور پھر بن گئے فسانے دو
ہم فقیروں کو کچھ تو دو صاحب
کچھ نہیں دے سکو تو طعنے دو
گرد چہرے پر، قبائے خاک تن پر سج گئی
رات کی گم گشتگی جیسے بدن پر سج گئی
جا چکے موسم کی خوشبو، صورتِ تحریرِ گل
یاد کے ملبوس کی اِک اِک شِکن پر سج گئی
میں تو شبنم تھی ہتھیلی پر ترے گم ہو گئی
وہ ستارہ تھی سو تیرے پیرہن پر سج گئی
تمہاری یاد
فقط ایک پھول
پرندے لوٹتے دیکھے، تو یہ دھوکا ہوا مجھ کو
کہ شاید جستجو میری
یا کوئی آرزو میری
ترے در سے پلٹ آئی
وہ جو غم کی پہلی بہار میں بنے آشنا
انہیں کوئی غم کا سندیس بھیج کے دیکھیے
انہیں پوچھیے
کہ نگاہِ وصل شناس میں کوئی اور ہے
جو ستارہ وار بلا رہا ہے کسی طرف
کہ یہ اپنی ذات سے کشمکش کی دلیل ہے
ان کہی
سانولی! تو مِرے پہلو میں ہے
لیکن تِری پیاسی آنکھیں
کبھی دیوار کو تکتی ہیں
کبھی جانب در دیکھتی ہیں
مجھ سے اس طرح گریزاں جیسے
شہرِ برباد میں
شہرِ برباد میں
ایک وحشت کھڑی ہے ہر اک موڑ پر
گردِ ناکامئ عمر کی کوئی سوغات لے کر
ہمارے دلوں کی اداسی
یونہی بے سبب تو نہ تھی
بن باس
رات دن خواب بنتی ہوئی زندگی
دل میں نقدِ اضافی کی لو
آنکھ بار امانت سے چور
موجِ خوں بے نیاز مال
داشتِ بے رنگ سے دور کے پھول چنتی ہوئی زندگی
خوش ہیں بہت مزاج زمانہ بدل کے ہم
لیکن یہ شعر کس کو سنائیں غزل کے ہم
اے مصلحت چلیں بھی کہاں تک سنبھل کے ہم
انداز کہہ رہے ہیں کہ انساں ہیں کل کے ہم
شاید عروس زیست کا گھونگھٹ الٹ گیا
اب ڈھونڈنے لگے ہیں سہارے اجل کے ہم
مغنیوں کو بلاؤ کہ نیند آ جائے
کہو وہ گیت سناؤ کہ نیند آ جائے
چلے بھی آؤ مِرے جیتے جی اب اتنا بھی
نہ انتظار بڑھاؤ کہ نیند آ جائے
چراغِ عمرِ گزشتہ بجھا دیا کس نے
وہی چراغ جلاؤ کہ نیند آ جائے
تیری آواز گیت
رات سنسان تھی بوجھل تھیں فضا کی سانسیں
روح پر چھائے تھے بے نام غموں کے سائے
دلِ کو یہ ضد تھی کہ تُو آئے تسلی دینے
میری کوشش تھی کہ کمبخت کو نیند آ جائے
دیر تک آنکھوں میں چبھتی رہی تاروں کی چمک
دیر تک ذہن سلگتا رہا تنہائی میں
فلمی گیت
مجھے گلے سے لگا لو، بہت اداس ہوں میں
غم جہاں سے چھڑا لو، بہت اداس ہوں میں
مجھے گلے سے لگا لو
یہ انتظار کا دکھ اب سہا نہیں جاتا
تڑپ رہی ہے محبت رہا نہیں جاتا
فلمی قوالی
حسن والے حسن کا انجام دیکھ
ڈوبتے سورج کو وقتِ شام دیکھ
صبح کے سورج کا بھی انداز دیکھ
بھول جا انجام کو آغاز دیکھ
دل کی دھڑکن درد کا سامان ہوں
حسن کا اٹھتا ہوا طوفان ہوں
فلمی گیت
تیرا کسی پہ آئے دل تیرا کوئی دُکھائے دل
تُو بھی کلیجہ تھام کر مجھ سے کہے کہ ہائے دل
تیرا کسی پہ آئے دل تیرا کوئی دُکھائے دل
یہ میرا نہیں آپ کا خیال ہے
تیرا بھی دل خدا کرے میرے لیے ہو بے قرار
بدن مسمار ہوتا جا رہا ہے
بہت بیزار ہوتا جا رہا ہے
چنریا اوڑھ لی ہے لال میں نے
کسی سے پیار ہوتا جا رہا ہے
یہ کیسا دور ہے ہر ماں کا بچہ
سمندر پار ہوتا جا رہا ہے
کہاں ہو تم؟
وہ ہر دم مجھ سے پوچھا کرتا تھا
کہاں ہے وہ؟
میں کس سے پوچھوں آج؟
اور کیوں پوچھوں؟
کہیں وہ سچ ہی نہ بول دے
گھول جا دن بھر کا حاصل اس دل بے تاب میں
ڈوب جا اے ڈوبتے سورج! مِرے اعصاب میں
آنکھ میں ہر لحظہ تصویریں رواں رہنے لگیں
جم گیا ہے خواب سا اک دیدۂ بے خواب میں
دل ہمارا شاخساروں سے، گلوں سے کم نہیں
اے صبا کی موجِ لرزاں، کچھ ہمارے باب میں
بارش کی آواز کو سن کر
پیڑوں کی آغوش میں سہمی شاخیں جھومنے لگتی ہیں
گردِ ملال میں لپٹے پتے، جاگ اٹھتے ہیں
اور ہوا کی پینگوں میں سرگوشیاں جھولنے لگتی ہیں
کھڑکی کی شیشوں پر جس دم پہلی بوندیں پڑتی ہیں تو
بارش کی آواز گھروں میں خوشبو بن کر در آتی ہے
اب تو آ جا اے مِری جان کے پیارے دشمن
ہر گھڑی درد کی شدت سے سسکتی آنکھیں
اور اوپر سے تِرے وصل کے خوابوں کا عذاب
روز آنگن میں کھڑے پیڑ سے گرتے پتے
اور سرِ شام پرندوں پہ گزرتی آفت
نبض اور دل کی بغاوت سے تڑپتی ہے حیات
سرشاری
ہاں، یہ وہ موسم تو وہ ہے
کہ جس میں نظر چپ رہے
اور بدن بات کرتا رہے
اس کے ہاتھوں کے شبنم پیالوں میں
چہرہ مرا
حیرت خانۂ امروز
اب کوئی پھول مرے درد کے دریا میں نہیں
اب کوئی زخم مرے ذہن کے صحرا میں نہیں
نہ کسی جنت ارضی کا حوالہ مجھ سے
نہ جہنم کا دہکتا ہوا شعلہ کوئی
میرے احساس کے پردے پہ رواں رہتا ہے
جدائی کی کوئی انت نہیں
صبح سے نکلا ہوا ہے گھر سے
رات بھی بیت چلی ہے اب تو
جانے کس بیتے ہوئے وصل کے کمہلائے ہوئے در پہ پڑا ہو گا
جانے کس الجھے ہوئے ہجر کے زانو پہ ذرا ٹیک کے سر
چین سے سویا ہو گا
کبھی ایسا تموّج تم نے دیکھا ہے
کبھی ایسا تموج تم نے دیکھا ہے
کبھی جذبات کا ایسا تموج تم نے دیکھا ہے
کہ سینے میں بھنور پڑتے ہوں تشنہ آرزوؤں کے
مگر ان کو میان موج رستہ بھی نہ ملتا ہو
کنارے تک رسائی کا اشارہ بھی نہ ملتا ہو
سنا ہے، کیچڑ کے سوکھنے پر حیات چولا بدل رہی تھی
شجر سے نیچے اتر کے خلقت، نحیف قدموں پہ چل رہی تھی
وسیع رقبے کا بے نہایت، خطیر ملبہ سمٹ رہا تھا
ضعیف تارے کی دھونکنی سے، مہیب ظلمت ابل رہی تھی
طواف کرتی ہوا کا رونا، مطاف میں غل مچا رہا تھا
حرم کے پھاٹک سے بین کرتی، کوئی سواری نکل رہی تھی
پھر دل کو دھڑکنا یاد آیا
جب درد پرانے ہو بیٹھے
جب یاد کا جگنو راکھ ہوا
جب آنکھ میں آنسو برف ہوئے
جب زخم سے دل مانوس ہوا
تب مجھ پہ کھُلا میں زندہ ہوں
پھر دل کو دھڑکنا یاد آیا
آگہی کا عذاب کیا جانیں
آگہی کا عذاب کیا جانیں
دل کی بستی میں کتنے نوحے ہیں
رکھنے والے حساب کیا جانیں
آگہی کا عذاب کیا جانیں
رونقیں کتنی ہیں دل کی نگری میں
ہم بڑے ہو گئے
مسکراہٹ، تبسم، ہنسی، قہقہے
سب کے سب کھو گئے
ہم بڑے ہو گئے
ذمہ داری مسلسل نبھاتے رہیں
بوجھ اوروں کا خود ہی اٹھاتے رہیں
سردیوں کی بارش تو آگ جیسی ہوتی ہے
آگ جو محبت ہے
ہجر ہے، رفاقت ہے
آگ جو دہکتی ہے
آگ جو بہکتی ہے
آگ جو بھڑکتی ہے
کبھی جھوٹے سہارے غم میں راس آیا نہیں کرتے
یہ بادل اڑ کے آتے ہیں، مگر سایا نہیں کرتے
یہی کانٹے تو کچھ خوددار ہیں صحنِ گلستاں میں
کہ شبنم کے لیے دامن تو پھیلایا نہیں کرتے
وہ لے لیں گوشۂ دامن میں، اپنے یا فلک چن لے
مِری آنکھوں میں آنسو بار بار آیا نہیں کرتے
نہ غیر ہی مجھے سمجھو نہ دوست ہی سمجھو
مِرے لیے یہ بہت ہے کہ آدمی سمجھو
میں رہ رہا ہوں زمانے میں سائے کی صورت
جہاں بھی جاؤ مجھے اپنے ساتھ ہی سمجھو
ہر ایک بات زباں سے کہی نہیں جاتی
جو چپکے بیٹھے ہیں کچھ ان کی بات بھی سمجھو
ہار کر ہجرِ نا تمام سے ہم
چپکے بیٹھے ہوئے ہیں شام سے ہم
کیسے اِترا رہے ہیں اپنی جگہ
ہو کے منسوب ان کے نام سے ہم
بس کہ دیوانہ ہی کہیں گے لوگ
آشنا ہیں مذاقِ عام سے ہم
پچھتاؤ گے پھر ہم سے شرارت نہیں اچھی
یہ شوخ نگاہی دمِ رخصت نہیں اچھی
سچ یہ ہے کہ گھر سے ترے جنت نہیں اچھی
حوروں کی ترے سامنے صورت نہیں اچھی
بھُولے سے کہا مان بھی لیتے ہیں کسی کا
ہر بات میں تکرار کی عادت نہیں اچھی
کیا ملے آپ کی محفل میں بھلا ایک سے ایک
رشک ایسا ہے کہ بیٹھا ہے جدا ایک سے ایک
دل ملے ہاتھ ملے اٹھ کے نگاہیں بھی ملیں
وصل بھی عید ہے ملنے کو بڑھا ایک سے ایک
ایسے ویسوں کو تو منہ بھی نہ لگایا ہم نے
ماہ رُو ہم کو تو اچھا ہی ملا ایک سے ایک
جذبہ
کھانے کے وقت دونوں
چپ چاپ کھا رہے تھے
صدیوں سے بھوکی لڑکی، قرنوں سے پیاسا مرد
آپس میں کوئی بات کرنے کو نہ بچی تھی
اور چادروں کے بیچ سلوٹوں میں دفن
قلبِ ماہیت
تانے بانے میں الجھی جالے بنتی ہوں
مکڑی جیسی لگتی ہو، خود سے سنتی ہوں
یہ تالاب بھی کہتا ہے
جس کے بھیتر عکس میرا چھپ رہتا ہے
اصل میں میں اک تتلی ہوں
فلمی گیت
چندا رے چندا کچھ تو ہی بتا میرا افسانہ
بے تاب ہے کیوں دل دیوانہ
کچھ تُو ہی بتا میرا افسانہ
کیوں لوگ مجھے سمجھاتے ہیں
کیوں شعلوں کو بھڑکاتے ہیں
جلتی ہوں مگر معلوم نہیں
فلمی گیت
میں نے اک آشیاں بنایا تھا اب بھی شاید وہ جل رہا ہو گا
تنکے سب راکھ ہو چکے ہوں گے اک دھواں سا نکل رہا ہو گا
میں نے اک آشیاں بنایا تھا
مجھ کو شکوہ نہیں زمانے سے مجھ کو تقدیر نے مٹایا ہے
بجلیوں کا کوئی قصور نہیں میں نے خود آشیاں جلایا ہے
ہر تمنا ہر آرزو کا بدن سوز غم سے پگل رہا ہو گا
میں نے اک آشیاں بنایا تھا
فلمی گیت
یہ آنکھیں دیکھ کر ہم ساری دنیا بھول جاتے ہیں
انہیں پانے کی دھن میں ہرتمنا بھول جاتے ہیں
تم اپنی مہکی مہکی زلف کے پیچوں کو کم کرلو
مسافر ان میں گھِر کر اپنا رستہ بھول جاتے ہیں
یہ آنکھیں دیکھ کر ہم ساری دنیا بھول جاتے ہیں
ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر
فلمی گیت
ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر
کہ دل ابھی بھرا نہیں
ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر
کہ دل ابھی بھرا نہیں
زندگی سے تھک کے اس کوچہ میں ہوں بیٹھا ہوا
جیسے اپنے وقت کا صوفی بڑا پہنچا ہوا
جس طرح بادل برس جائیں نکھر جانے کے بعد
آج آنسو بہہ کے دل کا بوجھ کچھ ہلکا ہوا
جانے کب سے دھوپ میں پیاسے پڑے تھے خار دشت
میرے تلووں کا سہارا مل گیا، اچھا ہوا
مسرتوں کی ساعتوں میں اختصار کر لیا
حیات غم کو ہم نے اور سازگار کر لیا
قسم جب اس نے کھائی ہم نے اعتبار کر لیا
ذرا سی دیر زندگی کو خوشگوار کر لیا
وہ آج چاہتے تھے بات کچھ بڑھے مگر وہ ہم
کہ بات بات پر سکوت اختیار کر لیا
کوئی آواز، نہ آہٹ، نہ خیال ایسے میں
رات مہکی ہے مگر جی ہے نڈھال ایسے میں
میرے اطراف تو گرتی ہوئی دیواریں ہیں
سایۂ عمر رواں مجھ کو سنبھال ایسے میں
جب بھی چڑھتے ہوئے دریا میں سفینہ اترا
یاد آیا تِرے لہجے کا کمال ایسے میں
دل چرا لے گئی دزدیدہ نظر دیکھ لیا
ہم نہ کہتے تھے کہ اس چور نے گھر دیکھ لیا
بندہ پرور غم فرقت کا اثر دیکھ لیا
داغ دل دیکھ لیا، داغ جگر دیکھ لیا
قد بھی کم عمر بھی کم مشق ستم اور بھی کم
کر چکے قتل مجھے جائیے گھر دیکھ لیا
ہجر کی رات مِری جاں پہ بنی ہو جیسے
دل میں اک یاد کہ نیزے کی انی ہو جیسے
نہیں معلوم کہ میں کون ہوں منزل ہے کہاں
چادر خاک ہر اک سمت تنی ہو جیسے
اپنی آواز کو خود سن کے لرز جاتا ہوں
کسی سائے سے مِری ہم سخنی ہو جیسے
نہ آئے تجھ کو نظر، تُو مگر اداس نہ ہو
تلاش کر وہ یہیں تیرے آس پاس نہ ہو
مجھے یقین نہیں اس کو تیرا پاس نہ ہو
تیرا گماں نہ ہو یا تیرا قیاس نہ ہو
یہ کس کو لوگ لیے جا رہے کاندھوں پر
کہیں یہ شخص تمہارا وفا شناس نہ ہو
کبھی سنتے ہیں عقل و ہوش کی اور کم بھی پیتے ہیں
کبھی ساقی کی نظریں دیکھ کر پیہم بھی پیتے ہیں
کہاں تم دوستوں کے سامنے بھی پی نہیں سکتے
کہاں ہم روبروئے ناصحِ برہم بھی پیتے ہیں
خزاں کی فصل ہو، روزے کے ایامِ مبارک ہوں
طبیعت لہر پہ آئی، تو بے موسم بھی پیتے ہیں
پہلے نہائی اوس میں پھر آنسوؤں میں رات
یوں بوند بوند اتری ہمارے گھروں میں رات
کچھ بھی دکھائی دیتا نہیں دور دور تک
چبھتی ہے سوئیوں کی طرح جب رگوں میں رات
وہ کھردری چٹانیں، وہ دریا، وہ آبشار
سب کچھ سمیٹ لے گئی اپنے پروں میں رات
وقت اس حسیں کے پاس کچھ اتنا قلیل تھا
قصہ اک آہ میں بھی سمٹ کر طویل تھا
عہدِ بہار تھا کہ کوئی وحشتِ حسیں
جس پھول کو ٹٹول کے دیکھا علیل تھا
موت آئی اور دیکھ کے واپس چلی گئی
جو تھا وہ زندگی کی ادا کا قتیل تھا
رات آ بیٹھی ہے پہلو میں، ستارو، تخلیہ
اب ہمیں درکار ہے خلوت، سو یارو، تخلیہ
آنکھ وا ہے اور حسنِ یار ہے پیشِ نظر
شش جہت کے باقی ماندہ سب نظارو، تخلیہ
دیکھنے والا تھا منظر جب کہا درویش نے
کج کلاہو، بادشاہو، تاجدارو، تخلیہ
پری لڑکی
اری لڑکی، اری بھاگوں بھری لڑکی
پری لڑکی
تمناؤں کی فصلیں مت اُگا دل پر
یہ فصلیں خواب زادوں کا لہو تک چوس لیتی ہیں
پری لڑکی، یہ دنیا ہے
دیکھ کر گستاخیاں اپنے بہاؤ کے خلاف
ایک دریا ہو گیا چھوٹی سی ناؤ کے خلاف
مجھ کو روکا پیار سے لوگوں نے، سو کرنا پڑا
یہ مِرا ردِ عمل تھا اس دباؤ کے خلاف
زخم سے مرہم ہٹا دو، تاکہ یہ بھی سانس لے
مجھ کو نفرت ہے دوا سے جو ہو گھاؤ کے خلاف
زندگی اے زندگی
اک بات تو سن، پل بھر تو ٹھہر
کیا اتنی مہلت دے گی تُو
یا ایسی سہولت دے گی تُو
وہ سارے کپڑے پہن لوں میں جو الماری میں لٹکے ہیں
سارے سوہنے سینڈل، پاؤں میں ڈال کر چھم چھم رقص کروں
اگر دستک دو
اور میں گھر پہ نہ ملوں
تو رکنا
لوٹ نہ جانا
خود میں انتظار کی سکت نہ پاؤ تو
اپنے دل میں جھانک لینا
فلمی گیت
وہ چاند سا چہرہ لیے چھت پر تیرا آنا
جلووں سے تیرے چاند کا بھی منہ کو چھپانا
وہ چاند سا چہرہ لیے
ملتے ہی نظر وہ تیری پلکوں کا جھپکنا
گستاخ نگاہوں پہ میری تیرا چمکنا
گھبرا کے ادب سے وہ میرا سر کو جھکانوں
فلمی گیت
وہ حسین درد دے دو جسے میں گلے لگا لوں
وہ نگاہ مجھ پہ ڈالو کہ میں زندگی بنا لوں
وہ حسین درد دے دو جسے میں گلے لگا لوں
تمہیں تم سے مانگتی ہوں ذرا اپنا ہاتھ دے دو
مجھے آج زندگی کی وہ سہاگ رات دے دو
جسے لے کے کچھ نہ مانگوں اور مانگ میں سجا لوں
یوں تو جو چاہے یہاں صاحبِ محفل ہو جائے
بزم اس شخص کی ہے تُو جسے حاصل ہو جائے
ناخدا! اے مِری کشتی کے چلانے والے
لطف تو جب ہے کہ ہر موج ہی ساحل ہو جائے
اس لیے چل کے ہر اک گام پہ رک جاتا ہوں
تا نہ بے کیف غمِ دورئ منزل ہو جائے
گھور اندھیروں کی بستی میں جنسِ ہنر کو عام کریں
پھر سے ہم یہ آنسو بیچیں، روشنیاں نیلام کریں
اک دنیا ہے دشمن اپنی ایک زمانہ قاتل ہے
کس کس کے سر تہمت باندھیں کس کس کو بدنام کریں
وہ شہرت سے ڈرنے والا، تنہا تنہا پھرتا ہے
دل کہتا ہے ساری غزلیں اس کافر کے نام کریں
حالات کی بھیگی رات بھی ہے جذبات کا تیز الاؤ بھی
میں کون سی آگ میں جل جاؤں، اے نکتہ ورو سمجھاؤ بھی
ہر چند نظر نے جھیلے ہیں ہر بار سنہرے گھاؤ بھی
ہم آج بھی دھوکا کھا لیں گے، تم بھیس بدل کر آؤ بھی
گرداب کے خونیں حلقوں سے جب کھیل چکی ہے ناؤ بھی
پتوار بدلنا کیا معنی؟ ملاحوں کو سمجھاؤ بھی
تھے خواب ایک ہمارے بھی اور تمہارے بھی
پر اپنا کھیل دکھاتے رہے ستارے بھی
یہ زندگی ہے یہاں اس طرح ہی ہوتا ہے
سبھی نے بوجھ سے لادے ہیں، کچھ اتارے بھی
سوال یہ ہے کہ آپس میں ہم ملیں کیسے
ہمیشہ ساتھ تو چلتے ہیں دو کنارے بھی
ٹوٹ جانے میں کھلونوں کی طرح ہوتا ہے
آدمی عشق میں بچوں کی طرح ہوتا ہے
اس لیے مجھ کو پسند آتا ہے صحرا کا سکوت
اس کا نشہ تِری باتوں کی طرح ہوتا ہے
ہم جسے عشق میں دیتے ہیں خدا کا منصب
پہلے پہلے ہمِیں لوگوں کی طرح ہوتا ہے
خاموشی ہی بہتر ہے
تلخیاں ہیں باتوں میں
سختیاں ہیں لہجوں میں
مر گئی ہے سچائی
سسکیوں میں انساں کی
درد سانس لیتا ہے
زخم روز ملتے ہیں
میں لاہور جانا چاہتا ہوں
لاہور
مگر کس لیے؟
مجھے معلوم ہوا ہے کہ اس نے وہاں بادشاہی مسجد کے قریب
کسی درخت پر میرا نام لکھا ہوا ہے
تم ابھی بھی اسے؟
آؤ ذکر کریں
کچھ لمحوں کا
اک چائے پئیں
اک چائے جئيں
اک مگ ہو بھاپ اڑاتا ہوا
اک مگ ہو ساتھ نبھاتا سا
خزاں کے آخری دن تھے
بہار آئی نہ تھی لیکن
ہوا کے لمس میں اک بے صدا سی نغمگی محسوس ہوتی تھی
درختوں کے تحّیر میں
کسی بے آسرا امید کی لَو تھرتھراتی تھی
گزرگاہوں میں اڑتے خشک پتے
محبت تجھ پہ لعنت ہے
کوئی کسی کے لیے قبر نہیں ناپتا
کوئی کسی کے رنگوں سے سفید رنگ نہیں چھانتا
کوئی کسی کی آنکھوں سے بہہ بہہ کر سمندر نہیں بُنتا
کسی کی راہ سے کنکر نہیں چُنتا
سب ڈھونگ ہے، بکواس ہے
دیکھ! میں زندہ ہو ں
دیکھ! تُو بھی زندہ ہے
محبت یوں بھی ہوتی ہے
ہمیشہ چپ رہا جائے
کبھی کچھ نہ کہا جائے
حفاظت ایسے کی جائے
کہ جیسے راز ہو کوئی
کسی پُر سوز سینے میں
فلمی گیت
میری زندگی ہے نغمہ میری زندگی ترانہ
میں صدائے زندگی ہوں مجھے ڈھونڈ لے زمانہ
میری زندگی ہے نغمہ میری زندگی ترانہ
میں کسی کو کیا بتاؤں مجھے یاد کچھ نہیں ہے
کہاں رہ گئی بچھڑ کر میری شاخیں آشیانہ
میری زندگی ہے نغمہ میری زندگی ترانہ
فلمی گیت
یہاں قدر کیا دل کی ہو گی
یہ دنیا ہے شیشہ گروں کی
محبت کا دل ٹھوکروں میں
ہے قیمت یہاں پتھروں کی
بڑی سادگی سے زمانہ
کہانی کا رخ موڑتا ہے
فلمی گیت
لے آئی پھر کہاں پر قسمت ہمیں کہاں سے
یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے
لے آئی پھر کہاں پر
مجبور کر رہی ہے پھر گردشِ زمانہ
ہم چھیڑ دیں وہیں سے گزرا ہوا فسانہ
لیکن کوئی بتا دے بھولے ہیں ہم کہاں سے
فلمی گیت
کسی پتھر کی مورت سے محبت کا ارادہ ہے
پرستش کی تمنا ہے، عبادت کا ارادہ ہے
کسی پتھر کی مورت سے
جو دل کی دھڑکنیں سمجھے، نہ آنکھوں کی زباں سمجھے
نظر کی گفتگو سمجھے، نہ جذبوں کا بیاں سمجھے
متاعِ الفاظ
یہ جو تم مجھ سے گریزاں ہو، میری بات سنو
ہم اسی چھوٹی سی دنیا کے کسی رستے پر
اتفاقاً کبھی بُھولے سے کہیں مِل جائیں
کیا ہی اچھا ہو کہ ہم دوسرے لوگوں کی طرح
کچھ تکلف سے سہی ٹھہر کے کچھ بات کریں
اور اس عرصۂ اخلاق و مروت میں کبھی
اپنا اپنا وقت
شیلف میں رکھی ہوئی کتابوں کی طرح
ٹرالی پر سجے ہوئے ٹی وی کی طرح
اور دیواروں پر ٹنگی ہوئی تصویروں کی طرح
ہم بھی
اپنا اپنا وقت پورا کر رہے ہیں
لمحے لمحے کی نارسائی ہے
زندگی حالتِ جدائی ہے
مردِ میداں ہوں اپنی ذات کا میں
میں نے سب سے شکست کھائی ہے
اِک عجب حال ہے کہ اب اس کو
یاد کرنا بھی بے وفائی ہے
جسم تمام اشتہا، عشق میں اشتہا نہ کر
جسم کے ساتھ چل مگر جسم پہ اکتفا نہ کر
خواہش و خواب و اہتمام، یار پہ چھوڑ دے تمام
یار کا دھیان کر فقط، یار سے التجا نہ کر
واعظِ دل گریز سن! میرا معاملہ ہے اور
اپنی ہی عاقبت سنوار، میرے لیے دعا نہ کر
دنیا دیکھی گھوم کے میں نے چاروں اور سے
آنکھیں بوجھل ہو گئیں تصویروں کے شور سے
دو عمروں کے فرق سے آئے تھے ہم سامنے
میں نے دیکھا دھیان سے، اس نے دیکھا غور سے
بوسہ دے کے باندھ لی اپنے سیدھے ہاتھ میں
آیت اک انجیل کی، بسم اللہ کی ڈور سے
جس طرح سسکیاں آوازوں میں دب جاتی ہیں
اپنی غزلیں بھی کہیں سازوں میں دب جاتی ہیں
دل کے جذبات کہاں کھلتے ہیں شہزادی پر
دستکیں قلعے کے دروازوں میں دب جاتی ہیں
اب پریشان نہیں لگتے ہیں ہم چہروں سے
الجھنیں ہنستے ہوئے غاروں میں دب جاتی ہیں
مجھے بھی عشق تِری بددعا نہ لگ جائے
میرے عقب میں کہیں یہ بلا نہ لگ جائے
چھپا ہوا ہوں کہیں اپنے خوف سے صاحب
کہاں ہوں میں مجھے میرا پتا نہ لگ جائے
جمال یار کو دل سے نکالتا نہیں میں
کہیں اسے بھی یہاں کی ہوا نہ لگ جائے
پاؤں کے زخم دکھانے کی اجازت دی جائے
ورنہ رہگیر کو جانے کی اجازت دی جائے
اس قدر ضبط مِری جان بھی لے سکتا ہے
کم سے کم اشک بہانے کی اجازت دی جائے
کارِ دنیا مجھے مجنوں نہیں بننا لیکن
عشق میں نام کمانے کی اجازت دی جائے
سرد جھونکوں میں تِرا ہجر سجا کر لایا
کس قدر درد و الم اب کے دسمبر لایا
چاند نکلا ہے نہ خوشبو ہے نہ آواز تِری
کون کمرے سے مجھے کھینچ کے باہر لایا
اس نے فہرستِ تحائف میں لکھایا کیکر
کاٹ کر جس کے لیے گھر کا صنوبر لایا
گھر میں چیزیں بڑھ رہی ہیں زندگی کم ہو رہی ہے
دھیرے دھیرے گھر کی اپنی روشنی کم ہو رہی ہے
شہر کے بازار کی رونق میں دل بجھنے لگے ہیں
خوب خوش ہونے کی خواہش میں خوشی کم ہو رہی ہے
اب کسی کو بھی چھوؤ، لگتا ہے پہلے سے چھوا سا
وہ جو تھی پہلے پہل کی سنسنی، کم ہو رہی ہے
وہ حال ہے کہ تلاشِ نجات کی جائے
کسی فقیر دعا گو سے بات کی جائے
یہ شہر کیسا خوش اوقات تھا اور اب کیا ہے
جو دن بھی نکلے تو وحشت نہ رات کی جائے
کوئی تو شکل گماں ہو، کوئی تو حیلۂ خیر
کسی طرح تو بسر اب حیات کی جائے
چشمِ وحشت! یہ تِری گریہ گزاری کم ہے
غم زیادہ ہے، مگر سینہ فگاری کم ہے
اتنا چلائیں کہ قاتل کی رگیں پھٹ جائیں
رونے والو! ابھی آواز ہماری کم ہے
اس لیے بڑھتی چلی جاتی ہے لاشوں کی قطار
میری فرصت کے لیے زخم شماری کم ہے
چراغ خود ہی بجھایا، بجھا کے چھوڑ دیا
وہ غیر تھا، اسے اپنا بنا کے چھوڑ دیا
ہزار چہرے ہیں موجود، آدمی غائب
یہ کس خرابے میں دنیا نے لا کے چھوڑ دیا
میں اپنی جاں میں اسے جذب کس طرح کرتا
اسے گلے سے لگایا، لگا کے چھوڑ دیا
شوق اپنا آپ میں اپنی زباں سے کیوں کہوں
دل جو کچھ کہتا ہے وہ اس بد گماں سے کیوں کہوں
تم سمجھ لو، سوچ لو، تم تاڑ لو، پہچان لو
بات اپنے دل کی میں اپنی زباں سے کیوں کہوں
کان میں سن لو ادھر آ کر مری اک بات تم
تم سے کچھ کہتا ہوں میں سارے جہاں سے کیوں کہوں
شب و روز تماشہ
ذہن جب تک ہے
خیالات کی زنجیر کہاں کٹتی ہے
ہونٹ جب تک ہیں
سوالات کی زنجیر کہاں کٹتی ہے
بحث کرتے رہو لکھتے رہو نظمیں غزلیں
آنکھوں کو پھوڑ ڈالوں یا دل کو توڑ ڈالوں
یا عشق کی پکڑ کر گردن مروڑ ڈالوں
یک قطرہ خوں بغل میں ہے دل مِرے سو اس کو
پلکوں سے تیری خاطر کیوں کر نچوڑ ڈالوں
وہ آہوئے رمیدہ مل جائے تیرہ شب گر
کتا بنوں شکاری اس کو بھنبھوڑ ڈالوں
سوچتا ہوں جو تجھے دل سے بھلانا پڑ جائے
میں تو مر جاؤں اگر دکھ یہ اٹھانا پڑ جائے
اک محبت پہ قناعت کا ہے مطلب، یعنی
آخری بس میں کھڑے ہو کے بھی جانا پڑ جائے
ڈھونڈنے والے بہر طور تجھے ڈھونڈیں گے
کرۂ ارض بھلے الٹا گھمانا پڑ جائے
اسی کو ترکِ وفا کا گماں ستانے لگے
جسے بھلاؤں تو کچھ اور یاد آنے لگے
اسے سنبھال کے رکھو، خزاں میں لَو دے گی
یہ خاکِ لالہ و گُل ہے، کہیں ٹھکانے لگے
تجھے میں اپنی محبت سے ہٹ کے دیکھ سکوں
یہاں تک آنے میں مجھ کو، کئی زمانے لگے
یہ داستان محبت کی شِق بہ شِق دُکھ ہے
تمام عمر کے گریے سے منسلک دکھ ہے
سو ہم نے کھو ہی دیا سلسلہ رسائی کا
ہمارے آخری میسج پہ ایک ٹِک٭ دکھ ہے
مصالحت تھی جدائی کی بات سے منسوب
کہاں پہ دونوں ہوئے آ کے متفق، دکھ ہے
رنج کتنا بھی کریں ان کا زمانے والے
جانے والے تو نہیں لوٹ کے آنے والے
کیسی بے فیض سی رہ جاتی ہے دل کی بستی
کیسے چپ چاپ چلے جاتے ہیں جانے والے
ایک پل چھین کے انسان کو لے جاتا ہے
پیچھے رہ جاتے ہیں سب ساتھ نبھانے والے
اس تیرگی میں چاند سمجھ رات کا مجھے
میں آخری چراغ ہوں تُو مت بجھا مجھے
سارا کمال تو تِری کوزہ گری کا ہے
ورنہ زمیں کی خاک سے بننا تھا کیا مجھے
بس اک قدم ہی گھر سے نکلنے کی دیر تھی
پھر لے گیا کہیں سے کہیں راستہ مجھے
بے گھری ساتھ ہی ہوتی ہے جدھر جاتے ہیں
یعنی ہم گھر سے بھی چلتے ہیں تو گھر جاتے ہیں
تم بھی رستے سے کہیں لوٹ کے مت آجانا
اس جگہ لوگ صدا دے کے مُکر جاتے ہیں
یہ میرا حوصلہ ہے مر کے بھی زندہ ہوں ابھی
ورنہ کچھ لوگ تو جیتے ہوئے مر جاتے ہیں
مصرع تِری حیا کی طرف جا رہا ہے یار
یہ شعر بھی دعا کی طرف جا رہا ہے یار
مجھ سے یہ اک گلاب بھی لے جائے لازمی
کوئی اگر خدا کی طرف جا رہا ہے یار
تیرا مریض موت کے بالکل قریب ہے
بیمار اب شفا کی طرف جا رہا ہے یار
وہ طمطراق سکندر نہ قصر شاہ میں ہے
جو بات راحتِ خستہ کی خانقاہ میں ہے
اسے ہٹانا پڑے گا جنوں کی ٹھوکر سے
یہ کائنات رکاوٹ مِری نگاہ میں ہے
میں اس سماج کو تسلیم ہی نہیں کرتا
کہ عشق جیسی عبادت جہاں گناہ میں ہے
عطا جسے تیرے عکس جمال ہوتا ہے
وہ پھول سارے گلستاں کا لال ہوتا ہے
تلاش کرتی ہے سائے تمہارے آنچل کے
چمن میں باد صبا کا یہ حال ہوتا ہے
رہ مجاز میں ہیں منزلیں حقیقت کی
مگر یہ اہل نظر کا خیال ہوتا ہے
بھرے جہاں میں کوئی میرا یار تھا ہی نہیں
کسی نظر کو میرا انتظار تھا ہی نہیں
نہ ڈھونڈئیے میری آنکھوں میں رتجگوں کی تھکن
یہ دل کسی کے لیے بے قرار تھا ہی نہیں
سنا رہا ہوں محبت کی داستاں اس کو
میری وفا پہ جسے اعتبار تھا ہی نہیں
میرے راستے میں پڑاؤ ہے
کسی رائیگانی کے درد کا
کئی گہری گہری اداسیاں
مجھے ڈھونڈ لائی ہیں شہر سے
تیرے بعد دہر میں زندگی
کئی ہجرتوں کی اسیر ہے
وہ دلگداز تھا سو اس نے دل لگی کر لی
خموش بھی رہا اور مجھ سے بات بھی کر لی
نکال پائے نہ خود کو حصار سے اس کے
غنیمِ جان سے پھر ہم نے دوستی کر لی
میں اس کے سامنے بیٹھا رہا تو گُل تھا چراغ
میں اٹھ کے نکلا تو ظالم نے روشنی کر لی
اجڑے دلوں کا کوئی ٹھکانہ بنائیں گے
ان بستیوں کو پھر سے پرانا بنائیں گے
اک پل بنا بنایا گزارا نہ جا سکا
اور کہہ رہے ہیں اپنا زمانہ بنائیں گے
پاؤں رہے تو رقص کریں گے کسی کے ساتھ
آنکھیں رہیں تو آئینہ خانہ بنائیں گے
بچھڑے تو قربتوں کی دعا بھی نہ کر سکے
اب کے تجھے سپرد خدا بھی نہ کر سکے
تقسیم ہو کے ره گئے خود کرچیوں میں ہم
نام وفا کا قرض ادا بھی نہ کر سکے
نازک مزاج لوگ تھے ہم جیسے آئینہ
ٹوٹے کچھ اس طرح کہ صدا بھی نہ کر سکے
جو روح کے سفر میں بدن کا شریک تھا
دیکھی نہ ہم نے جس کی جبیں پر کبھی شکن
وہ دل کی ایک ایک چبھن کا شریک تھا
اک لمحے کو وہ آیا تصور میں تو لگا
جیسے وہ سارے دن کی تھکن کا شریک تھا
خاموشیوں سے آج ہیں ہم محو گفتگو
تِرا غم اشک بن کر آ گیا ہے
کہ پھر آگے سمندر آ گیا ہے
بظاہر خشک سالی ہے گھروں پر
مگر سیلاب اندر آ گیا ہے
نیا پیغام شیشے پر لکھوں گا
کہ میرے ہاتھ پتھر آ گیا ہے
نہ پوچھ کیسے مجھے توڑ کر نکلتی ہے
جو موجِ اشک سرِ چشمِ تر نکلتی ہے
اسے یقیں نہیں آئے گا دیکھ کر مجھ کو
کہ شاخ کٹ کے بھی بارِ دگر نکلتی ہے
بچا کے جان کہیں اس جہانِ کج روسے
نکال گر کوئی راہِ مفر نکلتی ہے
مسلسل آگ میں اک آگ سے لگی ہوئی ہے
یہ 'میں' جو راکھ بنی ہے تو روشنی ہوئی ہے
رُکا نہیں کسی منزل پہ کاروانِ سفر
ازل سے خون میں تحریک سی چلی ہوئی ہے
خمیرِ تخم میں رکھی ہوئی حسیں خواہش
گلاب بن کے ہر ایک شاخ پر کھلی ہوئی ہے
میں اپنے آپ سے پہلے کلام کرتا ہوں
پھر اس کے بعد کوئی اور کام کرتا ہوں
میں درس دیتا ہوں سب سے بھلائی کرنے کا
میں شاعری میں محبت کو عام کرتا ہوں
امیر شخص سے ملتا ہوں فاصلے سے ذرا
غریب شخص کو پہلے سلام کرتا ہوں
برگشتہ ہیں تقلید پہ مائل بھی ہوئے ہیں
دشمن مِرے کردار کے قائل بھی ہوئے ہیں
کچھ غير کے احسان بھی بڑھتے رہے تجھ پر
کچھ ہم تِرے احوال سے غافل بھی ہوئے ہیں
یوں سہل نہ تھا معرکۂ ترکِ تمنا
اس جنگ میں ہم تیرے مقابل بھی ہوئے ہیں
بہت دور ایک گاؤں
بہت دور گاؤں ہے میرا
جہاں میرے بچپن کے جگنو
ابھی تک گھنے پیپلوں پر چمکتے ہیں
میری زباں سے گرے توتلے لفظ اب بھی
کئی سال سے غیرآباد گھر کی
کبھی تو سوچ، تِرے سامنے نہیں گزرے
وہ سب سمے جو تِرے دھیان سے نہیں گزرے
یہ اور بات کہ ہوں ان کے درمیاں میں بھی
یہ واقعے کسی تقریب سے نہیں گزرے
ان آئینوں میں جلے ہیں ہزارعکسِ عدم
دوامِ درد، تِرے رتجگے نہیں گزرے
بھلا غموں سے کہاں ہار جانے والے تھے
ہم آنسوؤں کی طرح مسکرانے والے تھے
ہمیں نے کر دیا اعلانِ گمرہی، ورنہ
ہمارے پیچھے بہت لوگ آنے والے تھے
انہیں تو خاک میں ملنا ہی تھا کہ میرے تھے
یہ اشک کون سے اونچے گھرانے والے تھے
گنہگاروں کو تعزیریں سنائی جا رہی تھیں
وفا کی آخری شمعیں بجھائی جا رہی تھیں
جنازے آدمیت کے اٹھائے جا رہے تھے
بغاوت خیز آوازیں دبائی جا رہی تھیں
بچھائے جا رہے تھے جال دیوانوں کی خاطر
خرد مندوں کی تقدیریں سلائی جا رہی تھیں
یہ کون سا پروانہ مؤا جل کے لگن میں
حیرت سے جو ہے شمع کی انگشت دہن میں
کہتے ہیں اسے چاہ زنخداں غلطی سے
بوسے کا نشاں ہے یہ ترے سیب ذقن میں
وہ آئینہ تن آئینہ پھر کس لیے دیکھے
جو دیکھ لے منہ اپنا ہر اک عضو بدن میں
کس کو ہو گا تِرے آنے کا پتہ میرے بعد
کون سن پائے گا لمحوں کی صدا میرے بعد
جس سے یادوں کے شبستان مہک اٹھتے تھے
اسی خوشبو کو ترستی ہے صبا میرے بعد
میں تو اک رقص تھا کچھ رنگ بھرے ذروں کا
راز یہ اہل زمانہ پہ کھلا میرے بعد
محبتوں میں جو مٹ مٹ کے شاہکار ہوا
وہ شخص کتنا زمانے میں یادگار ہوا
تری ہی آس میں گزرے ہیں دھوپ چھاؤں سے ہم
تِری ہی پیاس میں صحرا بھی خوش گوار ہوا
نہ جانے کتنی بہاروں کی دے گیا خوشبو
وہ اک بدن جو ہمارے گلے کا ہار ہوا
سوئے ہوئے جذبوں کو جگانا ہی نہیں تھا
اے دل! وہ محبت کا زمانہ ہی نہیں تھا
مہکے تھے چراغ اور دہک اٹھی تھیں کلیاں
گو سب کو خبر تھی اسے آنا ہی نہیں تھا
دیوار پہ وعدوں کی امر بیل چڑھا دی
رخصت کے لیے اور بہانہ ہی نہیں تھا
نہ غور سے دیکھ میرے دل کا کباڑ ایسے
کہ میں کبھی بھی نہیں رہا تھا اجاڑ ایسے
برا ہو تیرا جو بند رکھے تھے میں نے گھر کے
تو کھول آیا بغیر پوچھے کواڑ ایسے
جو میری روح و بدن کے ٹانکے ادھیڑ ڈالے
تو میری نظروں پہ اپنی نظروں کو گاڑ ایسے
اک دن دکھ کی شدت کم پڑ جاتی ہے
کیسی بھی ہو وحشت کم پڑ جاتی ہے
زندہ رہنے کا نشہ ہی ایسا ہے
جتنی بھی ہو مدت کم پڑ جاتی ہے
اپنے آپ سے ملتا ہوں میں فرصت میں
اور پھر مجھ کو فرصت کم پڑ جاتی ہے
دلِ ویران میں تیرا درد ہی مہمان کافی تھا
ہمیں بس اک تِرا ہجرِ بلائے جان کافی تھا
تجھے بالوں کو لہرانے کی ایسی کیا ضرورت تھی
میں جتنا ہو چکا تھا اس قدر حیران کافی تھا
کرم کچھ حد سے زیادہ مجھ پہ تُو نے کردیا لیکن
تجھے یہ زین یوں بھی بےسر و سامان کافی تھا
اب اور کتنی بھلا ہم تمہیں صفائی دیں
تم اپنے زعم سے نکلو تو ہم دکھائی دیں
تمہیں تو ٹھیک سے دل مانگنا نہیں آتا
تمہارے ہاتھ میں کیا کاسۂ گدائی دیں
کہیں سے ڈھونڈ کے لاؤ ذرا سی خاموشی
اب اتنے شور میں ہم کیا تمہیں سنائی دیں
بات کرنے کا نہیں، سامنے آنے کا نہیں
وہ مجھے میری اذیت سے بچانے کا نہیں
دور اک شہر ہے جو پاس بلاتا ہے مجھے
ورنہ یہ شہر کہیں چھوڑ کے جانے کا نہیں
کیا یوں ہی رات کے پہلو میں کٹے گی یہ حیات
کیا کوئی شہر کے لوگوں کو جگانے کا نہیں
جو بس میں ہے وہ کر جانا ضروری ہو گیا ہے
تری چاہت میں مر جانا ضروری ہو گیا ہے
ہمیں تو اب کسی اگلی محبت کے سفر پر
نہیں جانا تھا پر جانا ضروری ہو گیا ہے
ستارا جب مِرا گردش سے باہر آ رہا ہے
تو پھر دل کا ٹھہر جانا ضروری ہو گیا ہے
تن سلگتا ہے من سلگتا ہے
جب بہاروں میں من سلگتا ہے
نوجوانی عجیب نشہ ہے
چھاؤں میں بھی بدن سلگتا ہے
جب وہ محو خرام ہوتے ہیں
انگ سرو سمن سلگتا ہے
میری آنکھوں میں امڈ آیا ہے دریا دل کا
پھر کہیں ٹوٹ گیا نہ ہو کنارہ دل کا
اسی کوشش میں بہت عمر گنوا دی میں نے
پھر بھی پورا نہ ہوا خسارہ دل کا
کیوں نہ اے دوست ابھی ترکِ محبت کر لیں
اس سے پہلے کہ بدل جائے ارادہ دل کا
کل بھی تلاشِ رزق میں گزرا تمام دن
اڑتا پھرا فضا میں پرندہ تمام دن
سوچا تھا اپنے سائے کو دیکھوں تو اوڑھ کر
سورج نے مجھ پہ غصہ اتارا تمام دن
تنہائی کا خیال قریب آتا کس لیے
میں اپنا خود شریکِ سفر تھا تمام دن
یادش بخیر جب میں تِرا غم اسیر تھا
جو اشک ٹوٹتا تھا لہو کی لکیر تھا
مجھ سے چلے ہیں خون چھڑکنے کے سلسلے
میں دشت میں بہار کا پہلا سفیر تھا
وہ رو پڑا خراب و حزیں دیکھ کر مجھے
میں ہنس پڑا کہ دورِ ستم کا اخیر تھا
میں خوش ہوں مگر کوئی پریشانی ہے موجود
سوکھی ہوئی آنکھوں ابھی پانی ہے موجود
دنیا کبھی جاتی ہی نہیں چھوڑ کے مجھ کو
ہر وقت مرے دل میں یہ دیوانی ہے موجود
میں برف سے پانی میں ہوا کس طرح تبدیل
کہسار کی آنکھوں میں بھی حیرانی ہے موجود
اس کو جانے دے اگر جاتا ہے
زہر کم ہو تو اتر جاتا ہے
پیڑ دیمک کی پذیرائی میں
دیکھتے دیکھتے مر جاتا ہے
ایک لمحے کا سفر ہے دنیا
اور پھر وقت ٹھہر جاتا ہے
شدید گریہ کا مطلب بتا رہا تھا ہمیں
وہ رو رہا تھا کہ رونا سکھا رہا تھا ہمیں
ہم اس کے اٹھے ہوئے ہاتھ کی طرف بھاگے
پتہ چلا کہ وہ رستہ دکھا رہا تھا ہمیں
پہاڑ اس کے علاقے میں ڈھیر ہوتے ہیں
وہ اپنے گاؤں کی باتیں سنا رہا تھا ہمیں
کبھی رک گئے کبھی چل دئیے کبھی چلتے چلتے بھٹک گئے
یوں ہی عمر ساری گزار دی، یوں ہی زندگی کے ستم سہے
کبھی نیند میں کبھی ہوش میں تُو جہاں ملا تجھے دیکھ کر
نہ نظر ملی نہ زباں ملی، یوں ہی سر جھکا کے گزر گئے
کبھی زلف پر کبھی چشم پر، کبھی تیرے حسین وجود پر
جو پسند تھے میری کتاب میں وہ شعر سارے بکھر گئے
مے کشی گردش ایام سے آگے نہ بڑھی
میری مدہوشی مِرے جام سے آگے نہ بڑھی
دل کی حسرت دل ناکام سے آگے نہ بڑھی
زندگی موت کے پیغام سے آگے نہ بڑھی
وہ گئے گھر کے چراغوں کو بجھا کر میرے
پھر ملاقات مِری شام سے آگے نہ بڑھی
کیسے کٹا یہ شب کا سفر دیکھنا بھی ہے
بجھتے دِیے نے وقتِ سحر دیکھنا بھی ہے
اب کے اسے قریب سے چھونا بھی ہے ضرور
پتھر ہے آئینہ کہ گہر دیکھنا بھی ہے
یہ شہر چھوڑنا ہے مگر اس سے پیشتر
اس بے وفا کو ایک نظر دیکھنا بھی ہے
پہلے ست رنگ خواب بنتا ہے
عشق پھر اضطراب بنتا ہے
تُو مِرا وقت کھا گیا سارا
میرا تجھ سے حساب بنتا ہے
سچ بتا اس مقام پر مجھ سے
کیا تِرا اجتناب بنتا ہے؟
دُکانِ گریہ
پوچھنے والے تجھے کیسے بتائیں آخرِ
دُکھ عبارت تو نہیں، جو تجھے لکھ کر بھیجیں
یہ کہانی بھی نہیں ہے کہ سنائیں تجھ کو
نہ کوئی بات ہی ایسی کہ بتائیں تجھ کو
زخم ہو تو تیرے ناخن کے حوالے کر دیں
آئینہ بھی تو نہیں ہے کہ دکھائیں تجھ کو
تُو نے پوچھا ہے مگر کیسے بتائیں تجھ کو
مِری سمت آ کبھی لوٹ کر
تُو نکال مجھ کو عذاب سے
تجھے یاد ہے
مِرے ہر طرف
تِری آرزو کا حصار تھا
وہ نہیں رہا
معذرت چاہتا ہوں دوست
میں اب انتظار نہیں کرتا
بلکہ خود چل پڑتا ہوں اپنی طرف
ایک پوشیدہ چاپ کے تعاقب میں
خود سے باہر نکلتا ہوں
اور اپنے ہی جیسے کسی ہجوم کا حصہ بن کر
اپنے وجود پر اکتفا کرتا ہوں
سکوت
کس قدر پر سکوں
ضبط کی جھیل ہے
جس میں کھلتے نہیں
درد کے دائرے
اور مِرے ہاتھ میں
کوئٹے تک
صدیوں سے راہ تکتی ہوئی گھاٹیوں میں تم
اک لمحہ آ کے ہنس گئے، میں ڈھونڈھتا پھرا
ان وادیوں میں برف کے چھینٹوں کے ساتھ ساتھ
ہر سُو شرر برس گئے، میں ڈھونڈھتا پھرا
راتیں ترائیوں کی تہوں میں لڑھک گئیں
دن دلدلوں میں دھنس گئے میں ڈھونڈھتا پھرا
اب سمجھ میں آیا ہے
نظم لکھنے والوں نے نظم کیوں نہیں لکھی؟
پُھول چُننے والوں نے
پُھول چُن لیے لیکن
زخم زخم مٹی کا درد کیوں نہیں سمجھا
مہکتی ہواؤں کے جِسم سے
بے قراری سی بے قراری ہے
دن بھی بھاری ہے، رات بھاری ہے
زندگی کی بساط پر اکثر
جیتی بازی بھی ہم نے ہاری ہے
توڑو دل میرا شوق سے توڑو
چیز میری نہیں تمہاری ہے
چلتے چلتے رک جاؤں اور ہنستے ہنستے روؤں میں
مولا ہجر مکمل کر دے، کسی طرف تو ہوؤں میں
جھانک رہی ہیں شام کی ٹوٹی کھڑکی سے دو نم آنکھیں
سوچ رہا ہوں ان میں تیرے وصل کے خواب سموؤں میں
برسوں بعد بھی تیرا چہرہ صاف دکھائی دیتا ہے
آبِ زم زم سے آئینہ تیری یاد کا دھوؤں میں
کیسے مجھ کو ڈھونڈ لیا ہے کس پہچان سے آیا ہو گا
سرخ گلابوں کا یہ تحفہ کس گلدان سے آیا ہو گا
اس پاگل سے کہا تھا میں نے چُنری والا سوٹ نہ بھیجو
جب پہنوں گی سب سوچیں گے یہ ملتان سے آیا ہو گا
کل پرسوں جو شہر میں میرے اک ادبی تقریب ہوئی ہے
گھر بیٹھی میں سوچ رہی ہوں، کتنی شان سے آیا ہو گا
معاف کرنا بھلائے نہیں گئے مجھ سے
تھپک کے خواب سلائے نہیں گئے مجھ سے
وہ روشنی تھی سمندر مزاج آنکھوں کی
چراغ رات جلائے نہیں گئے مجھ سے
عجیب ڈھنگ سے اجڑے ہیں جسم و جان مِرے
کہ چاہ کر بھی بسائے نہیں گئے مجھ سے
پھر وداع و وصل پر ہوں گی خیال آرائیاں
سو گیا ہے شہر، جاگ اٹھنے کو ہیں تنہائیاں
شاخِ دل سے آرزوؤں کے پرندے اڑ گئے
بے طلب ہیں اب بہاروں کی چمن آرائیاں
ایک نوحہ سا ابھرتا ہے لبِ احساس پر
آہ! وہ عہدِ جنوں کی انجمن آرائیاں
ہے محبت کا سلسلہ کچھ اور
درد کچھ اور ہے دوا کچھ اور
غم کا صحرا عجیب صحرا ہے
جتنا کاٹا یہ بڑھ گیا کچھ اور
بھیڑ میں آنسوؤں کی سن نہ سکا
تم نے شاید کہا تو تھا کچھ اور
اس دنیا میں اپنا کیا ہے
کہنے کو سب کچھ اپنا ہے
یوں تو شبنم بھی دریا ہے
یوں تو دریا بھی پیاسا ہے
یوں تو ہر ہیرا بھی کنکر
یوں تو مٹی بھی سونا ہے
اک گلی تھی جب اس سے ہم نکلے
ایسے نکلے کہ جیسے دم نکلے
جن سے دل کا معاملہ ہوتا
یہاں بہت کم ہی ایسے غم نکلے
کوچہ آرزو جو تھا اس میں
زلف جاناں طرح کے خم نکلے
ہجوم دیکھ کے رستہ نہیں بدلتے ہم
کسی کے ڈر سے تقاضا نہیں بدلتے ہم
ہزار زیر قدم راستہ ہو خاروں کا
جو چل پڑیں تو ارادہ نہیں بدلتے ہم
اسی لیے تو نہیں معتبر زمانے میں
کہ رنگ صورت دنیا نہیں بدلتے ہم
لے بجھی، میری کائنات مجھے
کھا گئی، تہمتِ حیات مجھے
مصلحت نے، زباں کو روک دیا
یاد آئی تھی، کوئی بات مجھے
صبحِ محشر کو ملتوی کردو
ہو گئی ہے، میکدے میں رات مجھے
وہ چپ چاپ آنسو بہانے کی راتیں
وہ اک شخص کے یاد آنے کی راتیں
شبِ مہ کی وہ ٹھنڈی آنچیں وہ شبنم
تِرے حسن کے رسمسانے کی راتیں
جوانی کی دوشیزگی کا تبسم
گلزار کے وہ کھلانے کی راتیں
تجھے کھا گیا پیت کا تاپ سکھی
یہ دنیا جھوٹ نگر سائیں
یہاں کس کا، کون سا گھر سائیں؟
یہاں گھونگھٹ پیچھے لاج نہیں
یہاں آنچ تو ہے پر سانچ نہیں
یا تُو اور میں کو بھول ابھی
یا مانگ میں لکھ لے دھول ابھی
کرچیاں اتنی ہیں، کم کم نظر آتا ہے مجھے
خواب کیا ٹوٹے کہ مدھم نظر آتا ہے مجھے
ہاتھ سے کرتا ہوں محسوس خد و خالِ طرب
کیسا اندھا ہوں کہ بس غم نظر آتا ہے مجھے
بوکھلایا ہوا پھرتا ہوں میں آنکھیں میچے
بیٹھے بیٹھے کوئی یک دم نظر آتا ہے مجھے
خواب کی طرح سے یاد ہے
خواب کی طرح سے ہے یاد کہ تم آئے تھے
جس طرح دامن مشرق میں سحر ہوتی ہے
ذرے ذرے کو تجلی کی خبر ہوتی ہے
اور جب نور کا سیلاب گزر جاتا ہے
رات بھر ایک اندھیرے میں بسر ہوتی ہے
کچھ اسی طرح سے ہے یاد کہ تم آئے تھے
رات اک رنگ ہے اک راگ ہے اک خوشبو ہے
مہرباں رات مِرے پاس چلی آئے گی
رات کا نرم تنفس مجھے چھو جائے گا
دودھیا پھول چنبیلی کے مہک اٹھیں گے
رات کے ساتھ مِرا غم بھی چلا آئے گا
اب مِرے خانۂ دل میں بھی چراغاں ہوگا
بے خواب سے لمحوں کا پرستار کون تھا
اتنی اداس رات میں بیدار کون تھا
کس کو یہ فکر تھی کہ محبت میں کیا ہوا
ہم اس پہ لڑ رہے تھے وفادار کون تھا
سو کشتیاں جلا کے چلے ساحلوں سے ہم
اب تم کو کیا بتائیں کہ اس پار کون تھا
حاصلِ عہدِ تمنا نہ ملا
رات کے بعد اجالا نہ ملا
تُو تو کیا شہر میں تیرے ہم کو
کسی دیوار کا سایا نہ ملا
اس کی چاہت میں فنا ہو جاتے
کیا کریں کوئی بھی تجھ سا نہ ملا
ٹوٹا ہے دل پہ کوہ ستم نین رو پڑے
دیکھا جو ماہ رنج و الم نین رو پڑے
رونے سے دهل گئی ہے بصیرت کی آبرو
یہ بھی حسین کا ہے کرم نین رو پڑے
تفسیر لا الہ رخ قاسم کی تابشیں
یاد آ گئی جبین حرم نین رو پڑے
پلٹ کر دیکھ لینا جب صدا دل کی سنائی دے
میری آواز میں شاید مِرا چہرہ دکھائی دے
محبت روشنی کا ایک لمحہ ہے مگر چپ ہے
کسے شمع تمنا دے کسے داغ جدائی دے
چبھیں آنکھوں میں بھی اور روح میں بھی درد کی کرچیں
مِرا دل اس طرح توڑو کے آئینہ بدھائی دے
بانسری درد کی جب سوز جگائے گی بہت
رات بھر تم کو مِری یاد ستائے گی بہت
یہ جو ہر سمت خموشی ہے اِسے مت چھیڑو
یہ اگر بول پڑے گی تو سنائے گی بہت
صورتِ خواب تمہیں دل میں بسائے رکھا
ہم کو اس خواب کی تعبیر رلائے گی بہت
اے محبت کے مؤرخ ہر حسیں کو بے وفا لکھ
نام اس بے مہر کا بھی برسبیلِ تذکرہ لکھ
کل زمانہ جان لے گا اس کے باشندوں کے پیشے
آج تو شہرِ محبت کی فقط آب و ہوا لکھ
یوں چھپا سکتا ہے اپنے دور کی کم مائیگی تو
ایک گل کو گلستاں کہہ، اک بشر کو قافلہ لکھ
دنیا میں کس کا عشق و مقدر پہ زور ہے
کرنیں اگلتی آگ میں تنہا چکور ہے
یک دم برہنہ ہو گئیں ساری تجوریاں
دستک بتا رہی تھی دریچے پہ چور ہے
کہرام مت سمجھ اسے روزِ حساب کا
چاکِ قفس سے سانس گزرنے کا شور ہے
کوئی رستہ نکالنا پڑے گا
آگ میں ہاتھ ڈالنا پڑے گا
خود کو تیرے سپرد کیا کیجے
پھر تجھے بھی سنبھالنا پڑے گا
مانگنے میں اگر کمی نہ ہوئی
کم سے کم پر تو ٹالنا پڑے گا
اتنے اشجار میں چھتنار کو دیکھے جائیں
چھاؤں لینی ہو تو ہم یار کو دیکھے جائیں
ایسے لگتا ہے کوئی بات کرے گی ہم سے
اسی امید پہ دیوار کو دیکھے جائیں
جائیں عمرے پہ کسی یار کی یاد آ جائے
اور ہم بیٹھ کے اک غار کو دیکھے جائیں
بولے تو اچھا، برا محسوس ہو
اس کی خاموشی سے کیا محسوس ہو
اس طرح دیوار پر تصویر رکھ
آدمی بیٹھا ہوا محسوس ہو
دام منہ مانگے ملیں گے اور نقد
قتل لیکن حادثہ محسوس ہو
بچے ہوئے ہیں تبھی اس کے اعتراض سے ہم
وہ جانتا ہے کہ واقف ہیں اس کے راز سے ہم
ہمارے نام کے جھنڈے گڑے ہوئے ہیں وہاں
پلٹ رہے ہیں گھروں کو جو اب محاذ سے ہم
کسی کا لہجہ بدلنے سے یوں ہوا محسوس
گرا دیئے گئے اڑتے ہوئے جہاز سے ہم
تم نے دیکھے ہیں کبھی
شہر کے وسط میں گھڑیال کے روندے ہوئے پل
جن میں چاہت کے ہزاروں قصے
عشق کے سبز اجالے میں کئی زرد بدن
اپنے ہونے کی سزا کاٹ رہے ہیں
تم نے دیکھے نہیں شاید
اے ہجر زدہ شب
آ تو ہی مِرے سینے سے لگ جا کہ بٹے غم
احساس کو تنہائی کی منزل سے ملے رہ
آواز کی گمنام زمینوں کو ملے نم
آ کچھ تو گھٹے غم
اس ساعت مہجور کی فریاد ہو مدھم
درد کی دھوپ سے چہرے کو نکھر جانا تھا
آئینہ دیکھنے والے تجھے مر جانا تھا
راہ میں ایسے نقوش کف پا بھی آئے
میں نے دانستہ جنہیں گرد سفر جانا تھا
وہم و ادراک کے ہر موڑ پہ سوچا میں نے
تو کہاں ہے مرے ہمراہ اگر جانا تھا
کچھ اور پِلا نشاط کی مے
یہ لذتِ جسم ہے عجیب شے
اب بھی وہی گیت ہے وہی لے
تخیل میں ہر طلب ہے تحصیل
جو بات کہیں نہیں یہاں ہے
کرتے تِرا انتظار ابد تک
وہ بہکی نگاہیں کیا کہیے، وہ مہکی جوانی کیا کہیے
وہ کیف میں ڈوبے لمحوں کی اب رات سہانی کیا کہیے
الجھی ہوئی زلفیں خواب اثر بدمست نگاہیں وجہ بقا
دنیا سے مگر امکان شب اسرار و معانی کیا کہیے
روداد محبت سن سن کر خود حسن کو بھی نیند آنے لگی
اب اور کہاں سے لائیں دل اب اور کہانی کیا کہیے
اس بے ثمر فساد سے مخلوق تنگ ہے
یہ جنگ صرف بانجھ اناؤں کی جنگ ہے
سہمی ہوئی ہیں جھیل میں نیکی کی مچھلیاں
پھر آج محوِ رقص بدی کا نہنگ ہے
پیغامِ امن کا بھی دھماکوں سے دیں جواب
لوگوں کے منہ میں جیبھ نہیں ہے تفنگ ہے
دل پُر شوق کو پہلو میں دبائے رکھا
تجھ سے بھی ہم نے تِرا پیار چھپائے رکھا
چھوڑ اس بات کو اے دوست کہ تجھ سے پہلے
ہم نے کس کس کو خیالوں میں بسائے رکھا
غیر ممکن تھی زمانے کے غموں سے فرصت
پھر بھی ہم نے تِرا غم دل میں بسائے رکھا
ہمیں پینے پلانے کا مزا اب تک نہیں آیا
کہ بزم مے میں کوئی پارسا اب تک نہیں آیا
ستم بھی لطف ہو جاتا ہے بھولے پن کی باتوں سے
تجھے اے جان! اندازِ جفا اب تک نہیں آیا
دم آخر تھے بالیں پہ جو آنے کو وہ آئے بھی
تو ہنس کر کہہ گئے وقت دعا اب تک نہیں آیا
کہوں یہ کیسے کہ جینے کا حوصلہ دیتے
مگر یہی کہ مجھے غم کوئی نیا دیتے
شب گزشتہ بہت تیز چل رہی تھی ہوا
صدا تو دی پہ کہاں تک تجھے صدا دیتے
کئی زمانے اسی پیچ و تاب میں گزرے
کہ آسماں کو تِرے پاؤں پر جھکا دیتے
اکثر سوچتا ہوں
کہ تمہارے پاس جائے بغیر
تم سے مل آؤں
اور منہ سے کچھ بولے بغیر
بہت ساری باتیں کہہ آؤں
شاید
کچھ لوگ سمجھنے ہی کو تیار نہیں تھے
ہم ورنہ کوئی عقدۂ دشوار نہیں تھے
صد حیف کہ دیکھا ہے تجھے دھوپ سے بے کل
افسوس کہ ہم سایۂ دیوار نہیں تھے
ہم اتنے پریشاں تھے کہ حال دل سوزاں
ان کو بھی سنایا کہ جو غم خوار نہیں تھے
یہ بھی سچ ہے کہ نہیں ہے کوئی رشتہ تجھ سے
جتنی امیدیں ہیں وابستہ ہیں تنہا تجھ سے
ہم نے پہلی ہی نظر میں تجھے پہچان لیا
مدتوں میں نہ ہوئے لوگ شناسا تجھ سے
شب تاریک فروزاں تِری خوشبو سے ہوئی
صبح کا رنگ ہوا اور بھی گہرا تجھ سے
اپنی نگاہ شوق کو رسوا کریں گے ہم
ہر دل کو بے قرار تمنا کریں گے ہم
ہاں آپ کو اٹھانا پڑے گی نگاہ لطف
کیا مفت اپنے راز کو افشا کریں گے ہم
خلوت کدے میں دل کے بٹھا دیں گے حسن کو
اور اپنے جلوے انجمن آرا کریں گے ہم
بادل ہے اور پھول کھلے ہیں سبھی طرف
کہتا ہے دل کہ آج نکل جا کسی طرف
تیور بہت خراب تھے سنتے ہیں کل تِرے
اچھا ہوا کہ ہم نے نہ دیکھا تِری طرف
جب بھی ملے ہم ان سے انہوں نے یہی کہا
بس آج آنے والے تھے ہم آپ کی طرف
اس لڑکیوں کی بھیڑ میں لیلیٰ نہیں کوئی
مجنوں بہت ہیں شہر میں صحرا نہیں کوئی
ہاتھوں میں ہاتھ دے کے یہاں گھومتے ہیں یہ
اب زندگی سے موت کا جھگڑا نہیں کوئی
اب آپ کی نگاہ کسی اور سمت ہے
اچھا ہے دل کے جانے کا خطرہ نہیں کوئی
ملو کہ سلسلۂ رفتگاں رہے نہ رہے
ہمارے بعد ہمارا نشاں رہے نہ رہے
نہیں ملے گی پھر ارزانئ ہنر ایسی
سو مال اٹھا لو کہ پھر یہ دکاں رہے نہ رہے
یہ ان کا کام ہے جن کو نہیں ہے فکرِ فنا
یہ شعر یاد رہیں گے، زباں رہے نہ رہے
جو عیاں تھا اسے مستور کہا جانے لگا
دل کی دھڑکن کو بہت دور کہا جانے لگا
شوق نے تیرے رکھا سب سے گریزاں ایسا
رفتہ رفتہ مجھے مغرور کہا جانے لگا
یہ زمانہ ہے یہاں سب ہے چلن پر موقوف
ابنِ منصور کو منصور کہا جانے لگا
چاند آیا ہی نہیں بات تمہاری کرنے
رات کے پاس کوئی سرمئی آنچل ہی نہ تھا
نیند تاروں میں بھٹکتی ہی رہی
خواب ملنے ہی نہیں آئے ہمیں
چاند نکلا تو ستاروں نے اسے گھیر لیا
چاند کی سمت نگاہوں کو لگائے ہوئے ہم
میں شاعرِ عوام ہوں تعظیم کر نہ کر
ہر عہد میرا عہد ہے تسلیم کر نہ کر
تیرے حواریوں نے عقیدے بدل لیے
تُو اپنی بوڑھی سوچ میں ترمیم کر نہ کر
وہ شخص سب کو بابِ اناالحق پڑھا گیا
تُو لفظِ صدق شاملِ تعلیم کر نہ کر
غالب
رات کو اکثر ہوتا ہے
پروانے آ کر
ٹیبل لیمپ کے گرد اکٹھے ہو جاتے ہیں
سنتے ہیں
سر دھنتے ہیں
پیاس کی کیسے لائے تاب کوئی
نہیں دریا تو ہو سراب کوئی
زخم دل میں جہاں مہکتا ہے
اسی کیاری میں تھا گلاب کوئی
رات بجتی تھی دور شہنائی
رویا پی کر بہت شراب کوئی
شام کے سائے جو سورج کو چھپانے نکلے
ہم دیے لے کے اندھیروں کو جلانے نکلے
دل سے کیا کیا نہ ترے غم کے خزانے نکلے
ہم نے لمحوں کو کریدا تو زمانے نکلے
اور تو کون تھا جو جرمِ بغاوت کرتا
ایک ہم ہی تھے جو یہ رسم نبھانے نکلے
کوئی پتھر کوئی گہر کیوں ہے
فرق لوگوں میں اس قدر کیوں ہے
تو ملا ہے تو یہ خیال آیا
زندگی اتنی مختصر کیوں ہے
جب تجھے لوٹ کر نہیں آنا
منتظر میری چشم تر کیوں ہے
دوری
دور ہی دور رہی بس مجھ سے
پاس وہ میرے آ نہ سکی تھی
لیکن اس کو چاہ تھی میری
وہ یہ بھید چھپا نہ سکی تھی
اب وہ کہاں ہے اور کیسی ہے
یہ بھی کیا شامِ ملاقات آئی
لب پہ مشکل سے تری بات آئی
صبح سے چپ ہیں ترے ہجر نصیب
ہائے کیا ہو گا اگر رات آئی
بستیاں چھوڑ کر برسے بادل
کس قیامت کی یہ برسات آئی
ہنگامۂ خودی سے تو بے نیاز ہو جا
گم ہو کے بے خودی میں آگاہ راز ہو جا
حد بھی تو چاہیئے کچھ بے اعتنائیوں کی
غارت گر تحمل تسکیں نواز ہو جا
اے سرمدی ترانے ہر شے میں سوز بھر دے
یہ کس نے کہہ دیا ہے پابند ساز ہو جا
میرے غم کو جو اپنا بتاتے رہے
وقت پڑنے پہ ہاتھوں سے جاتے رہے
بارشیں آئیں اور فیصلہ کر گئیں
لوگ ٹوٹی چھتیں آزماتے رہے
آنکھیں منظر ہوئیں کان نغمہ ہوئے
گھر کے انداز ہی گھر سے جاتے رہے
مان لے
کسی ہاتھ پر کسی لوح پر
جو لکھا نہیں
وہی ایک حرفِ گماں ہیں ہم
خطِ گمشدہ میں لکھی گئی
کوئی اجنبی سی زباں ہیں ہم
تُو تو کہتا تھا تجھے اس نے بھلایا ہوا ہے
آج وہ تیرے جنازے میں تو آیا ہوا ہے
اجرتیں مل گئیں صدیوں کے سفر کی مجھ کو
جب کہا اس نے کہ کیا حال بنایا ہوا ہے
ہاتھ میں کوئی تو درویش کے گُر ہے جس نے
گردشِ دوراں کو قدموں میں بٹھایا ہوا ہے
شہرِ آشوب
رشتۂ دیوار و در، تیرا بھی ہے، میرا بھی ہے
مت گرا اس کو یہ گھر تیرا بھی ہے، میرا بھی ہے
تیرے میرے دم سے ہی قائم ہیں اس کی رونقیں
میرے بھائی یہ نگر تیرا بھی ہے، میرا بھی ہے
کیوں لڑیں آپس میں ہم ایک ایک سنگِ میل پر
اس میں نقصانِ سفر تیرا بھی ہے، میرا بھی ہے
مصروف اپنے گھر کی جو زیبائشوں میں تھا
ہاتھ اس کا پورے شہر کی آلائشوں میں تھا
تیشے نے ہر چٹان کی صورت بگاڑ دی
کتنا جمال فطرتی آرائشوں میں تھا
جذبات سرد پڑ گئے تو منکشف ہوا
سارا سرُور جسم کی گرمائشوں میں تھا
زندگی اس پہ زمین زاد نہیں کر سکتا
چاند پر بستیاں آباد نہیں کر سکتا
اب کوئی حرف ہو لکھا ہوا یا چہرہ ہو
پڑھ تو لیتا ہوں اسے یاد نہیں کر سکتا
بیچنے کیلئے پکڑے ہیں پرندے اس نے
وہ انہیں مفت میں آزاد نہیں کر سکتا
خیال بن کے وہ مجھ میں اتر بھی آتا ہے
کہ رفتہ رفتہ دعا میں اثر بھی آتا ہے
جسے تلاش ہے خوش رنگ آبشاروں کی
وہ زخم زخم بدن لے کے گھر بھی آتا ہے
چراغ بن کے چمکتا ہوں سنگریزوں میں
سوادِ شب مجھے ایسا ہنر بھی آتا ہے
جب موت اور ظلم کی وحشی آنکھیں
روشندانوں اور دریچوں سے
جھانکنے لگتی ہیں
میں شاعری کی
جینے کی کونپلیں)
(جگاتی شاعری کی
خندقوں میں پناہ لیتا ہوں
جنوں کے بعد کوئی دوسرا ہنر نہ کیا
بنوں میں پھرتے رہے اور گھر کو گھر نہ کیا
وہ رات، مجھ پہ قیامت کی رات تھی، جس رات
مرے بدن سے ترے خواب نے گزر نہ کیا
یقیں غبار ہوا تو گمان سے پھُوٹا
کسی بھی رُت میں مجھے اس نے بے ثمر نہ کیا
وقت
وہ دِیروز کی شام
کب لوٹ کر آ سکی ہے
نظر جس کی امروز و فردا کے چہروں پہ مرکوز ہے
وہی اس سفر میں
افق زاد ہے
میں انتہائے یاس میں تنہا کھڑا رہا
سایہ مِرا شریکِ سفر ڈھونڈتا رہا
پھیلی تھی چاروں سمت سیاہی عجیب سی
میں ہاتھ میں چراغ لئے گھومتا رہا
یاد اس کی دور مجھ کو سرِشام لے گئی
میں ساری رات اپنے لیے جاگتا رہا
تلخیاں
چھوٹے چھوٹے ہوٹلوں میں شہر کے
مضطرب دل کی تسلی کے لیے
آنے والے کل کے منصوبوں میں گم
چند انساں
چائے سپ کرتے ہوئے
خوشی سے کون بکتا ہے بصد آزار بکتے ہیں
ضرورت کے تحت بازار کے بازار بکتے ہیں
دکانوں پر کبھی سر کے لیے دستار بکتی تھی
بذاتِ خود یہاں اب صاحبِ دستار بکتے ہیں
یہ دنیا ہے یہاں ہر شے کا اپنا بھاؤ تاؤ ہے
جو باہر بک نہیں سکتے پسِ دیوار بکتے ہیں
مجھ کو فلک فلک نہیں، مجھ کو زمیں زمیں نہیں
محفلِ دو جہاں ہے ہیچ، ایک اگر تمہیں نہیں
زاہدِ مے پرست کو، ہم نے بھی تاڑ ہی لیا
اصل میں 'ہاں' سے کم نہیں اس کی یہ سب نہیں نہیں
یہ بھی ہے شانِ عاشقی، میرے خلوصِ عشق پر
سارے جہاں کو ہے یقیں، تم کو مگر یقیں نہیں
جائز ہے اس کا قتل ہمارے حساب سے
جس نے محبتوں کو نکالا نصاب سے
تنقید کر رہے ہیں کتاب حیات پر
آگے نہ بڑھ سکے جو کبھی انتساب سے
اس وقت ایک سجدہ میرے کام آ گیا
میں جب گزر رہا تھا انا کے عذاب سے
اپنے چہرے کی ضیا دے کے اجالو مجھ کو
پر سکوں جیتا ہوں، الجھن میں ہی ڈالو مجھ کو
نیند اتری نہیں آنکھوں میں بڑی مدت سے
ریشمی زلف کے سائے میں سلا لو مجھ کو
ڈھونڈ لو پہلے خطاؤں کا مِری کوئی ثبوت
بے سبب یوں تو نہ محفل سے نکالو مجھ کو
پھر اس کے بعد تو تنہائیوں کے بیچ میں ہیں
کہ غم کی ٹوٹتی انگڑائیوں کے بیچ میں ہیں
یہ شادیانے فقط سرخوشی کا نام نہیں
کسی کی چیخیں بھی شہنائیوں کے بیچ میں ہیں
ہمیں تو خوف سا لاحق ہے ٹوٹ جانے کا
تعلقات جو گہرائیوں کے بیچ میں ہیں
یہ نا کہنا کبھی ہر درد سے آزاد ہیں ہم
عشق ہم نے بھی کیا عشق کے فرہاد ہیں ہم
اپنی خواہش کا ہمیں قتل کیا کرتے ہیں
آدمی کہنے کو ہیں اصل میں جلاد ہیں ہم
ہم نے وہ لکھی ہے تحریرِ اماں کاغذ پر
منہ زبانی کئی آنکھوں کو ابھی یاد ہیں ہم
نارسائی
درختوں کی شاخوں کو اتنی خبر ہے
کہ ان کی جڑیں کھوکھلی ہو چلی ہیں
مگر ان میں ہر شاخ بزدل ہے
یا مبتلا خود فریبی میں شاید
کہ اِن کِرم خوردہ جڑوں سے
وہ اپنے لیے تازہ نم ڈھونڈتی ہے
سانپ
یہ سانپ آج جو پھن اٹھائے
مِرے راستے میں کھڑا ہے
پڑا تھا قدم چاند پر میرا جس دن
اسی دن اسے مار ڈالا تھا میں نے
اکھاڑے تھے سب دانت کچلا تھا سر بھی
بھنور آنے کو ہے اے اہلِ کشتی ناخدا چن لیں
چٹانوں سے جو ٹکرائے وہ ساحل آشنا چن لیں
زمانہ کہہ رہا ہے میں نئی کروٹ بدلتا ہوں
انوکھی منزلیں ہیں کچھ نرالے رہنما چن لیں
اگر شمس و قمر کی روشنی پر کچھ اجارہ ہے
کسی بے درد ماتھے سے کوئی تارِ ضیا چن لیں
حویلیوں میں مِری تربیت نہیں ہوتی
تو آج سر پہ ٹپکنے کو چھت نہیں ہوتی
ہمارے گھر کا پتہ پوچھنے سے کیا حاصل
اداسیوں کی کوئی شہریت نہیں ہوتی
چراغ گھر کا ہو محفل کا ہو کہ مندر کا
ہوا کے پاس کوئی مصلحت نہیں ہوتی
ہوا کو اور بھی کچھ تیز کر گئے ہیں لوگ
چراغ لے کے نہ جانے کدھر گئے ہیں لوگ
سفر کے شوق میں اتنے عذاب جھیلے ہیں
کہ اب تو قصدِ سفر ہی سے ڈر گئے ہیں لوگ
دھواں دھواں نظر آتی ہیں شہر کی گلیاں
سنا ہے آج سرِ شام گھر گئے ہیں لوگ
ناقدو! وقت کی رفتار بدلنے کے لیے
میں نے مجبور زبانوں کو نوا بخشی ہے
کجکلاہوں کی رعونت کا اڑایا ہے مذاق
میں نے تاریخ کے چہرے کو ضیا بخشی ہے
سجنِ افرنگ کو لبیک کہی میں نے
اپنے اسلاف کے بے خوف چلن کی خاطر
شہرِ آشوب
صبحدم جو دیکھا تھا
کیا ہرا بھرا گھر تھا
ڈانٹتی ہوئی بیوی
بھاگتے ہوئے بچے
رسیوں کی بانہوں میں
جھولتے ہوئے کپڑے
گلشن کا ہر شجر مجھے مشکوک سا لگے
اب تو گلاب رنگ بھی مدقوق سا لگے
جدّت کے اس مقام پہ فائز ہوا ہوں میں
تازہ کلام بھی مجھے متروک سا لگے
سائل کو پیٹ کی اسے شہرت کی بھوک تھی
حاتم کا ذہن بھی مجھے مفلوک سا لگے
میرے پیکر سے لپٹ کر میری ہستی جان لے
روح سے پہلے بدن کے رنگ بھی پہچان لے
کب تلک کرتا رہے گا حسنِ حاضر سے مفر
اے قلم! زلفِ تراشیدہ کی عظمت مان لے
بامِ شہرت پر غزل کے گُل سجانے کے لیے
تُو کسی نقرئی آواز کا گلدان لے
اڑتی ہے دل کے فرش پر بیتے دنوں کی راکھ
میں ہوں تِرا خیال ہے اور سگرٹوں کی راکھ
بدلا جو سال ہم کو بھی سب نے بھلا دیا
ہم تھے کہ گزرے سال کے کیلنڈروں کی راکھ
گلیاں بھی سوچ میں ہیں دریچے بھی محو ہیں
وہ کون تھا بکھیر گیا جو دلوں کی راکھ
پہلے جیسا نہیں رہا ہوں
میں اندر تک ٹوٹ گیا ہوں
جیسے کاغذ پھٹ جاتا ہے
دو ٹکڑوں میں پڑا ہوا ہوں
دوست مِرا کیوں ساتھ نبھاتے
جب میں ان کو چھوڑ چکا ہوں
ترغیب
یہ ایک لمحہ جو اپنے ہاتھوں میں چاند سورج لیے کھڑا ہے
مجھے اشاروں سے کہہ رہا ہے
وہ میرے ہمزاد میرے بھائی
جو پتیوں کی طرح سے کمھلا کے زرد ہو کے
تمہارے قدموں میں آ گرے ہیں
پہنچے کہاں سے کوئی تیرے خدوخال تک
روشن نہ ہو سکے جہاں شمعِ خیال تک
ہم وہ الم نصیب کہ خواہش کے باوجود
خوشیاں تو کیا ملا نہیں حرفِ ملال تک
اب طائرِ خیال قفس سے نکل پڑا
باقی اڑان اور ہے اس خوش جمال تک
رفو گری میں عبث چارہ گر لگے ہوئے ہیں
جو زخم تن پہ تھے روح پر لگے ہوئے ہیں
تمہارے پاؤں تلے سیپیاں چٹخ رہی ہیں
تمہارے تاج میں لعل و گہر لگے ہوئے ہیں
تُو ایسا کر، کہ سفینہ نکال کر لے جا
مجھے ڈبونے میں جب تک بھنور لگے ہوئے ہیں
سرو سمن کی شوخ قطاروں کے سائے میں
مُرجھا رہے ہیں پھول بہاروں کے سائے میں
چھوٹی سی اِک خلوص کی دنیا بسائیں گے
آبادیوں سے دور چناروں کے سائے میں
تاریکیوں میں اور سیاہی نہ گھولیے
زلفیں بکھیریے نہ ستاروں کے سائے میں
تعاقب
لاکھ دنوں کے بعد
میں جب بھی تجھ سے
مل کر آتا ہوں
پیچھے پیچھے آتی
تیری دو آنکھوں کی چاپ
منکر کا خوف
پرانا پاسباں ظل الٰہی کا
جسے چاہے کرے منصب عطا عالم پناہی کا
اسے ترکیب آتی ہے
کسی مضمون کہنہ کو نیا عنوان دینے کی
وہ دیدہ ور ہمیشہ سے معین ہے
نظر فریب نظاروں کو آگ لگ جائے
مِری دعا ہے بہاروں کو آگ لگ جائے
خوشی کو چھین لیں، مشکل میں کام آ نہ سکیں
یہی ہیں یار تو یاروں کو آگ لگ جائے
پناہیں دامنِ طوفاں میں مل گئیں مجھ کو
مِری بلا سے کناروں کو آگ لگ جائے
تشبیب
تجھ کو چاند نہیں کہہ سکتا
کیونکہ یہ چاند تو اس دھرتی کے چار طرف ناچا کرتا ہے
میں البتہ دیوانہ ہوں
تیرے گرد پھرا کرتا ہوں
جیسے زمیں کے گرد یہ چاند اور سورج کے گرد اپنی زمیں ناچا کرتی ہے
لیکن میں بھی چاند نہیں ہوں