وہ بہکی نگاہیں کیا کہیے، وہ مہکی جوانی کیا کہیے
وہ کیف میں ڈوبے لمحوں کی اب رات سہانی کیا کہیے
الجھی ہوئی زلفیں خواب اثر بدمست نگاہیں وجہ بقا
دنیا سے مگر امکان شب اسرار و معانی کیا کہیے
روداد محبت سن سن کر خود حسن کو بھی نیند آنے لگی
اب اور کہاں سے لائیں دل اب اور کہانی کیا کہیے
جینا بھی بہت ہی مشکل ہے مرنا بھی کوئی آسان نہیں
اللہ رے کشاکش الفت کی کیا جی میں ہے ٹھانی کیا کہیے
فرحتؔ کا پتا پوچھے جو کوئی کافی ہے فقط یہ کافی ہے
پھوٹی ہوئی قسمت ٹوٹا دل اب اور نشانی کیا کہیے
فرحت کانپوری
No comments:
Post a Comment