اس بے ثمر فساد سے مخلوق تنگ ہے
یہ جنگ صرف بانجھ اناؤں کی جنگ ہے
سہمی ہوئی ہیں جھیل میں نیکی کی مچھلیاں
پھر آج محوِ رقص بدی کا نہنگ ہے
پیغامِ امن کا بھی دھماکوں سے دیں جواب
لوگوں کے منہ میں جیبھ نہیں ہے تفنگ ہے
تُو پیر کی نگاہ سے خائف ہے کس لیے
آنکھوں کا لال رنگ تو اعجازِ بھنگ ہے
میں آج اپنے قتل کا الزام دوں کسے؟
خود میری آستیں پہ مِرے خوں کا رنگ ہے
تنویر اس کو اپنی لغت سے نکال دے
اب لفظِ احتساب سے ہر شخص تنگ ہے
تنویر سپرا
No comments:
Post a Comment