Sunday 18 October 2020

دل پر شوق کو پہلو میں دبائے رکھا

 دل پُر شوق کو پہلو میں دبائے رکھا

تجھ سے بھی ہم نے تِرا پیار چھپائے رکھا

چھوڑ اس بات کو اے دوست کہ تجھ سے پہلے

ہم نے کس کس کو خیالوں میں بسائے رکھا

غیر ممکن تھی زمانے کے غموں سے فرصت

پھر بھی ہم نے تِرا غم دل میں بسائے رکھا

پھول کو پھول نہ کہتے سو اسے کیا کہتے

کیا ہوا غیر نے کالر پہ سجائے رکھا

جانے کس حال میں ہیں کون سے شہروں میں ہیں وہ

زندگی اپنی جنہیں ہم نے بنائے رکھا

ہائے کیا لوگ تھے وہ لوگ پری چہرہ لوگ

ہم نے جن کے لیے دنیا کو بھلائے رکھا

اب ملیں بھی تو نہ پہچان سکیں ہم ان کو

جن کو اک عمر خیالوں میں بسائے رکھا


حبیب جالب

No comments:

Post a Comment