Sunday 18 October 2020

شام کے سائے جو سورج کو چھپانے نکلے

شام کے سائے جو سورج کو چھپانے نکلے

ہم دیے لے کے اندھیروں کو جلانے نکلے

دل سے کیا کیا نہ ترے غم کے خزانے نکلے

ہم نے لمحوں کو کریدا تو زمانے نکلے

اور تو کون تھا جو جرمِ بغاوت کرتا

ایک ہم ہی تھے جو یہ رسم نبھانے نکلے

شہر میں، دشت میں، صحرا میں بھی تجھ کو پایا

اے غمِ یار! تِرے کتنے ٹھکانے نکلے

چاند نکلا تو میں لوگوں سے لپٹ کر رویا

غم کے آنسو تھے جو خوشیوں کے بہانے نکلے

ہم تو سمجھے تھے رہِ عشق میں تنہا ہم ہیں

سنگ برسے تو کئی لوگ دِوانے نکلے

اک عجب حبس کا عالم ہے فضا میں محسن

کوئی تو روٹھی ہوئی رُت کو منانے نکلے


محسن نقوی

No comments:

Post a Comment