شام کے سائے جو سورج کو چھپانے نکلے
ہم دیے لے کے اندھیروں کو جلانے نکلے
دل سے کیا کیا نہ ترے غم کے خزانے نکلے
ہم نے لمحوں کو کریدا تو زمانے نکلے
اور تو کون تھا جو جرمِ بغاوت کرتا
ایک ہم ہی تھے جو یہ رسم نبھانے نکلے
شہر میں، دشت میں، صحرا میں بھی تجھ کو پایا
اے غمِ یار! تِرے کتنے ٹھکانے نکلے
چاند نکلا تو میں لوگوں سے لپٹ کر رویا
غم کے آنسو تھے جو خوشیوں کے بہانے نکلے
ہم تو سمجھے تھے رہِ عشق میں تنہا ہم ہیں
سنگ برسے تو کئی لوگ دِوانے نکلے
اک عجب حبس کا عالم ہے فضا میں محسن
کوئی تو روٹھی ہوئی رُت کو منانے نکلے
محسن نقوی
No comments:
Post a Comment