Sunday 18 October 2020

پیاس کی کیسے لائے تاب کوئی

 پیاس کی کیسے لائے تاب کوئی 

نہیں دریا تو ہو سراب کوئی 

زخم دل میں جہاں مہکتا ہے 

اسی کیاری میں تھا گلاب کوئی 

رات بجتی تھی دور شہنائی 

رویا پی کر بہت شراب کوئی 

دل کو گھیرے ہیں روزگار کے غم 

ردی میں کھو گئی کتاب کوئی 

کون سا زخم کس نے بخشا ہے 

اس کا رکھے کہاں حساب کوئی

پھر میں سننے لگا ہوں اس دل کی 

آنے والا ہے پھر عذاب کوئی 

شب کی دہلیز پر شفق ہے لہو 

پھر ہوا قتل آفتاب کوئی


جاوید اختر

No comments:

Post a Comment