پیاس کی کیسے لائے تاب کوئی
نہیں دریا تو ہو سراب کوئی
زخم دل میں جہاں مہکتا ہے
اسی کیاری میں تھا گلاب کوئی
رات بجتی تھی دور شہنائی
رویا پی کر بہت شراب کوئی
دل کو گھیرے ہیں روزگار کے غم
ردی میں کھو گئی کتاب کوئی
کون سا زخم کس نے بخشا ہے
اس کا رکھے کہاں حساب کوئی
پھر میں سننے لگا ہوں اس دل کی
آنے والا ہے پھر عذاب کوئی
شب کی دہلیز پر شفق ہے لہو
پھر ہوا قتل آفتاب کوئی
جاوید اختر
No comments:
Post a Comment