کوئی پتھر کوئی گہر کیوں ہے
فرق لوگوں میں اس قدر کیوں ہے
تو ملا ہے تو یہ خیال آیا
زندگی اتنی مختصر کیوں ہے
جب تجھے لوٹ کر نہیں آنا
منتظر میری چشم تر کیوں ہے
اس کی آنکھیں کہیں صدف تو نہیں
اس کا ہر اشک ہی گہر کیوں ہے
رات پہلے ہی کیوں نہیں ڈھلتی
تیرگی شب کی تا سحر کیوں ہے
یہ بھی کیسا عذاب دے ڈالا
ہے محبت تو اس قدر کیوں ہے
تو نہیں ہے تو روز و شب کیسے
شام کیوں آ گئی سحر کیوں ہے
کیوں روانہ ہے ہر گھڑی دنیا
زندگی مستقل سفر کیوں ہے
میں تو اک مستقل مسافر ہوں
تُو بھلا میرا ہم سفر کیوں ہے
تجھے ملنا نہیں کسی سے عدیم
پھر بچھڑنے کا تجھ کو ڈر کیوں ہے
عدیم ہاشمی
No comments:
Post a Comment