کیسے مجھ کو ڈھونڈ لیا ہے کس پہچان سے آیا ہو گا
سرخ گلابوں کا یہ تحفہ کس گلدان سے آیا ہو گا
اس پاگل سے کہا تھا میں نے چُنری والا سوٹ نہ بھیجو
جب پہنوں گی سب سوچیں گے یہ ملتان سے آیا ہو گا
کل پرسوں جو شہر میں میرے اک ادبی تقریب ہوئی ہے
گھر بیٹھی میں سوچ رہی ہوں، کتنی شان سے آیا ہو گا
دیر ہوئی تو گھر آتے ہی تم بھی لڑنے لگ جاتی ہو
یہ نہ سوچا کیسے بچ کر کس طوفان سے آیا ہو گا
چاند ستارے جگنو موتی ان آنکھوں نے ماند کیے ہیں
رنگ سنہری کُل دنیا میں اس مسکان سے آیا ہو گا
فوزی تو دروازے پر ہی ہیلو ہائے تو کر لیتی
اتنی دور سے کوئی ملنے کس ارمان سے آیا ہو گا
فوزیہ شیخ
No comments:
Post a Comment