Tuesday 20 October 2020

معاف کرنا بھلائے نہیں گئے مجھ سے

 معاف کرنا بھلائے نہیں گئے مجھ سے

تھپک کے خواب سلائے نہیں گئے مجھ سے

وہ روشنی تھی سمندر مزاج آنکھوں کی

چراغ رات جلائے نہیں گئے مجھ سے

عجیب ڈھنگ سے اجڑے ہیں جسم و جان مِرے

کہ چاہ کر بھی بسائے نہیں گئے مجھ سے

تمہارا سایہ میسر نہ ہو سکا، ورنہ

تمام عمر ہی سائے نہیں گئے مجھ سے

گلاب کھلنے لگے تھے سفید کاغذ پر

تمہارے ہونٹ بنائے نہیں گئے مجھ سے

وہ حسن ساز نگاہوں میں بس گیا میثم

ندی میں پھول بہائے نہیں گئے مجھ سے


میثم علی آغا

No comments:

Post a Comment