معاف کرنا بھلائے نہیں گئے مجھ سے
تھپک کے خواب سلائے نہیں گئے مجھ سے
وہ روشنی تھی سمندر مزاج آنکھوں کی
چراغ رات جلائے نہیں گئے مجھ سے
عجیب ڈھنگ سے اجڑے ہیں جسم و جان مِرے
کہ چاہ کر بھی بسائے نہیں گئے مجھ سے
تمہارا سایہ میسر نہ ہو سکا، ورنہ
تمام عمر ہی سائے نہیں گئے مجھ سے
گلاب کھلنے لگے تھے سفید کاغذ پر
تمہارے ہونٹ بنائے نہیں گئے مجھ سے
وہ حسن ساز نگاہوں میں بس گیا میثم
ندی میں پھول بہائے نہیں گئے مجھ سے
میثم علی آغا
No comments:
Post a Comment