پھر وداع و وصل پر ہوں گی خیال آرائیاں
سو گیا ہے شہر، جاگ اٹھنے کو ہیں تنہائیاں
شاخِ دل سے آرزوؤں کے پرندے اڑ گئے
بے طلب ہیں اب بہاروں کی چمن آرائیاں
ایک نوحہ سا ابھرتا ہے لبِ احساس پر
آہ! وہ عہدِ جنوں کی انجمن آرائیاں
درد بن کر جاگتا ہے جب شبِ غم کا سکوت
بولنے لگتی ہیں یادوں کی گھنی پرچھائیاں
بزم سے اٹھ جائیں گے جب ہم گریباں چاک لوگ
کس کے گھر جائیں گی سارے شہر کی رسوائیاں
آج وہ بھی دربدر آشفتہ سر پھرنے لگے
ناصحوں نے ہم سے مل کر سیکھ لیں دانائیاں
اب اگر وہ اتفاقاً پاس آ بیٹھیں ظہیر
اور بڑھ جاتی ہیں قلب و روح کی تنہائیاں
ظہیر کاشمیری
No comments:
Post a Comment