ہے محبت کا سلسلہ کچھ اور
درد کچھ اور ہے دوا کچھ اور
غم کا صحرا عجیب صحرا ہے
جتنا کاٹا یہ بڑھ گیا کچھ اور
بھیڑ میں آنسوؤں کی سن نہ سکا
تم نے شاید کہا تو تھا کچھ اور
کم نہیں وصل سے فراق ترا
اس زیاں میں ہے فائدہ کچھ اور
دل کسی شے پہ مطمئن ہی نہیں
مانگتا ہے یہ اژدہا، کچھ اور
تیرے غم میں حسابِ عمر رواں
جتنا جوڑا، بکھر گیا کچھ اور
وصل کی رات کاٹنے والے
ہے شبِ غم کا ذائقہ کچھ اور
ہر طرف بھیڑ تھی طبیبوں کی
روگ بڑھتا چلا گیا کچھ اور
کٹ گئے دھار پہ زمانے کی
ہم سے امجد نہ ہو سکا کچھ اور
امجد اسلام امجد
No comments:
Post a Comment