Tuesday, 20 October 2020

ہے محبت کا سلسلہ کچھ اور

 ہے محبت کا سلسلہ کچھ اور

درد کچھ اور ہے دوا کچھ اور

غم کا صحرا عجیب صحرا ہے

جتنا کاٹا یہ بڑھ گیا کچھ اور

بھیڑ میں آنسوؤں کی سن نہ سکا

تم نے شاید کہا تو تھا کچھ اور

کم نہیں وصل سے فراق ترا

اس زیاں میں ہے فائدہ کچھ اور

دل کسی شے پہ مطمئن ہی نہیں

مانگتا ہے یہ اژدہا، کچھ اور

تیرے غم میں حسابِ عمر رواں

جتنا جوڑا، بکھر گیا کچھ اور

وصل کی رات کاٹنے والے

ہے شبِ غم کا ذائقہ کچھ اور

ہر طرف بھیڑ تھی طبیبوں کی

روگ بڑھتا چلا گیا کچھ اور

کٹ گئے دھار پہ زمانے کی

ہم سے امجد نہ ہو سکا کچھ اور


امجد اسلام امجد

No comments:

Post a Comment