Monday, 19 October 2020

حاصل عہد تمنا نہ ملا

 حاصلِ عہدِ تمنا نہ ملا

رات کے بعد اجالا نہ ملا

تُو تو کیا شہر میں تیرے ہم کو

کسی دیوار کا سایا نہ ملا

اس کی چاہت میں فنا ہو جاتے

کیا کریں کوئی بھی تجھ سا نہ ملا

بحرِ غم سے کبھی پایا نہ فرار

زیست کا کوئی کنارہ نہ ملا

مدتوں بعد ملے تھے جن سے

ان نگاہوں میں بلاوا نہ ملا

پھر خیالوں میں نہ گرداب پڑا

پھر وہ مانوس سا چہرہ نہ ملا

منجمد ہو گیا دل بھی ناہید

دل میں امڈا ہوا دریا نہ ملا


کشور ناہید

No comments:

Post a Comment