زندگی اس پہ زمین زاد نہیں کر سکتا
چاند پر بستیاں آباد نہیں کر سکتا
اب کوئی حرف ہو لکھا ہوا یا چہرہ ہو
پڑھ تو لیتا ہوں اسے یاد نہیں کر سکتا
بیچنے کیلئے پکڑے ہیں پرندے اس نے
وہ انہیں مفت میں آزاد نہیں کر سکتا
سانس لیتا ہوں مگر اپنی مدد آپ کے تحت
دوسرا کوئی بھی امداد نہیں کر سکتا
جانے کس کس سے تِرے بعد رہ و رسم رہی
میں بیاں ٹھیک سے تعداد نہیں کر سکتا
دو گھڑی بیٹھ کے میں یاد ہی کر لوں
قیمتی وقت ہے برباد نہیں کر سکتا
لفظ آواز کے سانچے میں نہیں ڈھل سکتے
اس خلا میں کوئی فریاد نہیں کر سکتا
دیکھنے والا بناتا ہے نسیم آئینہ
اپنی آنکھیں مگر ایجاد نہیں کر سکتا
نسیم عباسی
No comments:
Post a Comment