Saturday, 17 October 2020

زندگی اس پہ زمین زاد نہیں کر سکتا

 زندگی اس پہ زمین زاد نہیں کر سکتا

چاند پر بستیاں آباد نہیں کر سکتا

اب کوئی حرف ہو لکھا ہوا یا چہرہ ہو

پڑھ تو لیتا ہوں اسے یاد نہیں کر سکتا

بیچنے کیلئے پکڑے ہیں پرندے اس نے

وہ انہیں مفت میں آزاد نہیں کر سکتا

سانس لیتا ہوں مگر اپنی مدد آپ کے تحت

دوسرا کوئی بھی امداد نہیں کر سکتا

جانے کس کس سے تِرے بعد رہ و رسم رہی

میں بیاں ٹھیک سے تعداد نہیں کر سکتا

دو گھڑی بیٹھ کے میں یاد ہی کر لوں

قیمتی وقت ہے برباد نہیں کر سکتا

لفظ آواز کے سانچے میں نہیں ڈھل سکتے

اس خلا میں کوئی فریاد نہیں کر سکتا

دیکھنے والا بناتا ہے نسیم آئینہ

اپنی آنکھیں مگر ایجاد نہیں کر سکتا


نسیم عباسی

No comments:

Post a Comment