خیال بن کے وہ مجھ میں اتر بھی آتا ہے
کہ رفتہ رفتہ دعا میں اثر بھی آتا ہے
جسے تلاش ہے خوش رنگ آبشاروں کی
وہ زخم زخم بدن لے کے گھر بھی آتا ہے
چراغ بن کے چمکتا ہوں سنگریزوں میں
سوادِ شب مجھے ایسا ہنر بھی آتا ہے
نہ جسم و جاں کا اندھیرا نہ راستوں کا غبار
جو تو ملے تو اک ایسا سفر بھی آتا ہے
لہو لہو جو رہا پتھروں کی بارش میں
گلی گلی وہی چہرہ نظر بھی آتا ہے
اسے بھی پیار کے موسم پسند ہیں جاذب
سفر کی دھوپ میں جلنےشجر بھی آتا ہے
جاذب قریشی
No comments:
Post a Comment