جب موت اور ظلم کی وحشی آنکھیں
روشندانوں اور دریچوں سے
جھانکنے لگتی ہیں
میں شاعری کی
جینے کی کونپلیں)
(جگاتی شاعری کی
خندقوں میں پناہ لیتا ہوں
اپنے گمشدہ وجود کی
ستاروں ایسی جھلملاہٹ
مرے کمرے کی دیواروں اور چھتوں پر
نمودار ہوتی ہے
میں اپنے بستر کے ریگستانوں میں
دفن ہو جاتا ہوں
مرے مرنے کی خبریں
تمام شہروں میں
اشتہاروں کی صورت چپکا
دی جاتی ہیں
موت کے پیغامبر، ظلم کے وارث
مرے پاس
مری ہی تعزیت کے لیے آتے ہیں
میں کہتا ہوں
’’بھائیو! میں زندہ ہوں‘‘
پھر بھی ان کے جابر ہاتھ
انتہائی بے رحمی سے
مرے دروازے سے باہر
مرے نام کی تختی پر
مرا کتبہ آویزاں کر دیتے ہیں
سعادت سعید
No comments:
Post a Comment