مصروف اپنے گھر کی جو زیبائشوں میں تھا
ہاتھ اس کا پورے شہر کی آلائشوں میں تھا
تیشے نے ہر چٹان کی صورت بگاڑ دی
کتنا جمال فطرتی آرائشوں میں تھا
جذبات سرد پڑ گئے تو منکشف ہوا
سارا سرُور جسم کی گرمائشوں میں تھا
جس کی دلیل روح کے بارے میں تھی سند
الجھا ہوا وہ جسم کی پیمائشوں میں تھا
مجھ کو نہ عمر بھر کسی استاد سے ملا
جو درس میرے باپ کی فہمائشوں میں تھا
سپرا جدید دور کی آمد سے پیشتر
انسان ہر لحاظ سے آسائشوں میں تھا
تنویر سپرا
No comments:
Post a Comment