شہرِ آشوب
رشتۂ دیوار و در، تیرا بھی ہے، میرا بھی ہے
مت گرا اس کو یہ گھر تیرا بھی ہے، میرا بھی ہے
تیرے میرے دم سے ہی قائم ہیں اس کی رونقیں
میرے بھائی یہ نگر تیرا بھی ہے، میرا بھی ہے
کیوں لڑیں آپس میں ہم ایک ایک سنگِ میل پر
اس میں نقصانِ سفر تیرا بھی ہے، میرا بھی ہے
شاخ شاخ اس کی ہمیشہ بازوئے شفقت بنی
سایہ سایہ یہ شجر تیرا بھی ہے، میرا بھی ہے
کھا گئی کل ناگہاں جن کو فسادوں کی صلیب
ان میں اک نورِ نظر تیرا بھی ہے، میرا بھی ہے
اپنی حالت پر نہیں تنہا کوئی بھی سوگوار
دامنِ دل تر بہ تر تیرا بھی ہے، میرا بھی ہے
کچھ تو ہم اپنے ضمیروں سے بھی کر لیں مشورہ
گرچہ رہبر معتبر تیرا بھی ہے، میرا بھی ہے
غم تو یہ ہے گر گئی دستارِ عزت بھی قتیل
ورنہ ان کاندھوں پہ سر تیرا بھی ہے، میرا بھی ہے
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment