Saturday 17 October 2020

تو تو کہتا تھا تجھے اس نے بھلایا ہوا ہے

 تُو تو کہتا تھا تجھے اس نے بھلایا ہوا ہے

آج وہ تیرے جنازے میں تو آیا ہوا ہے

اجرتیں مل گئیں صدیوں کے سفر کی مجھ کو

جب کہا اس نے کہ کیا حال بنایا ہوا ہے

ہاتھ میں کوئی تو درویش کے گُر ہے جس نے

گردشِ دوراں کو قدموں میں بٹھایا ہوا ہے

میں تجھے اٹھ کے سلامی بھی نہیں دے سکتا

وقت ظالم مجھے کس موڑ پہ لایا ہوا ہے

ایک پودا کہ جو سائے میں بہت پھلتا ہے

میں نے سورج کی شعاعوں سے بچایا ہوا ہے

یہ تِرے خط ہیں پڑے، یہ تِری تصویریں ہیں

زندگی کیا ہے؟ فقط، کام چلایا ہوا ہے

حوصلے پست نہ مقتل میں بھی ہونے دینا

شہر کا شہر تجھے دیکھنے آیا ہوا ہے

تُو نے آنا ہے تو پھر دیر نہ کر آنے میں

میں نے اس موت کو مشکل سے منایا ہوا ہے

میں نے کل غور سے دیکھا تھا تِری غزلوں کو

کاغذوں نے یہ عبث بوجھ اٹھایا ہوا ہے

قبر سے اٹھنا پڑے گا تجھے اب تو غزنی

دیکھ اٹھ کر کہ کوئی دیکھنے آیا ہوا ہے


محمود غزنی

No comments:

Post a Comment