Saturday, 17 October 2020

مان لے

 مان لے


کسی ہاتھ پر کسی لوح پر

جو لکھا نہیں

وہی ایک حرفِ گماں ہیں ہم

خطِ گمشدہ میں لکھی گئی

کوئی اجنبی سی زباں ہیں ہم

کسی اور خطۂ درد پر

جو گزر سو گزر گیا

کوئی بے نشاں سا نشاں ہیں ہم

کبھی اپنے ہونے کے واہمے سے نکل کے دنیا کو دیکھیے

تو نہ کھل سکے کہ کہاں ہیں ہم

مری جاں! ہماری یہ داستاں

اسی آسماں کی چھت تلے

انہی کہکشاؤں کے درمیاں

کئی لاکھ بار کہی گئی

کئی لاکھ بار سنی گئی

یہ حدیثِ نغمۂ بے صدا

کبھی سرخ پھولوں کی تیز خوشبو میں رک گئی

کہیں آنسوؤں میں رواں ہوئی

یہ وہ شمعِ شامِ وصال ہے

جو تمام رات جلی کبھی

کبھی ایک پل میں دھواں ہوئی

کبھی روشنی کا یقیں بنی

کبھی تیرگی کا گمان ہوئی

تو جو ہو گیا اسے مان لے


امجد اسلام امجد

No comments:

Post a Comment