Saturday, 17 October 2020

میرے غم کو جو اپنا بتاتے رہے

 میرے غم کو جو اپنا بتاتے رہے 

وقت پڑنے پہ ہاتھوں سے جاتے رہے 

بارشیں آئیں اور فیصلہ کر گئیں 

لوگ ٹوٹی چھتیں آزماتے رہے 

آنکھیں منظر ہوئیں کان نغمہ ہوئے 

گھر کے انداز ہی گھر سے جاتے رہے 

شام آئی تو بچھڑے ہوئے ہم سفر 

آنسوؤں سے ان آنکھوں میں آتے رہے

ننھے بچوں نے چھو بھی لیا چاند کو 

بوڑھے بابا کہانی سناتے رہے 

دور تک ہاتھ میں کوئی پتھر نہ تھا 

پھر بھی ہم جانے کیوں سر بچاتے رہے 

شاعری زہر تھی کیا کریں اے وسیم

لوگ پیتے رہے ہم پلاتے رہے


وسیم بریلوی

No comments:

Post a Comment