Sunday 18 October 2020

یہ بھی سچ ہے کہ نہیں ہے کوئی رشتہ تجھ سے

یہ بھی سچ ہے کہ نہیں ہے کوئی رشتہ تجھ سے

جتنی امیدیں ہیں وابستہ ہیں تنہا تجھ سے

ہم نے پہلی ہی نظر میں تجھے پہچان لیا

مدتوں میں نہ ہوئے لوگ شناسا تجھ سے

شب تاریک فروزاں تِری خوشبو سے ہوئی

صبح کا رنگ ہوا اور بھی گہرا تجھ سے

بے تعلق بھی ہیں ہر رنگ ہر انداز سے ہم

وہ تعلق بھی ہے قائم جو کبھی تھا تجھ سے

یہ الگ بات زباں ساتھ نہ دے پائے گی

دل کا جو حال ہے کہنا تو پڑے گا تجھ سے

تیرے سینے میں بھی اک داغ ہے تنہائی کا

جانتا میں تو کبھی دور نہ ہوتا تجھ سے

آنکھ بھی پردہ ہے تکنے نہیں پاتی سورج

دل بھی دیوار ہے ملنے نہیں دیتا تجھ سے

کیوں ازل سے تِرے ہم راہ چلا آتا ہے

جانے کیا چاہتا ہے نقش کف پا تجھ سے

یہ الگ بات تجھے ٹوٹ کے چاہا لیکن

دل بے مایہ نے کچھ بھی نہیں چاہا تجھ سے

رات آئی تو طلب شمع نہیں کی دل نے

دھوپ نکلی ہے تو سایہ نہیں مانگا تجھ سے

جس سے وابستہ ہے شہزاد مقدر تیرا

روشنی مانگ رہا ہے وہ ستارہ تجھ سے


شہزاد احمد

No comments:

Post a Comment