کچھ لوگ سمجھنے ہی کو تیار نہیں تھے
ہم ورنہ کوئی عقدۂ دشوار نہیں تھے
صد حیف کہ دیکھا ہے تجھے دھوپ سے بے کل
افسوس کہ ہم سایۂ دیوار نہیں تھے
ہم اتنے پریشاں تھے کہ حال دل سوزاں
ان کو بھی سنایا کہ جو غم خوار نہیں تھے
سچ یہ ہے کہ اک عمر گزاری سر مقتل
ہم کون سے لمحے میں سر دار نہیں تھے
مانا کہ بہت تیز تھی رفتار حوادث
ہم بھی کوئی گرتی ہوئی دیوار نہیں تھے
یہ اس کی عنایت ہے کہ اپنا کے تمہیں شوق
وہ زخم دئیے جن کے سزاوار نہیں تھے
رضی اختر شوق
No comments:
Post a Comment