Friday, 16 October 2020

تجھ کو چاند نہیں کہہ سکتا

 تشبیب


تجھ کو چاند نہیں کہہ سکتا

کیونکہ یہ چاند تو اس دھرتی کے چار طرف ناچا کرتا ہے

میں البتہ دیوانہ ہوں

تیرے گرد پھرا کرتا ہوں

جیسے زمیں کے گرد یہ چاند اور سورج کے گرد اپنی زمیں ناچا کرتی ہے

لیکن میں بھی چاند نہیں ہوں

میں بادل کا اک ٹکڑا ہوں

جس کو تیری قربت کی کرنوں نے اٹھا کر زلفوں جیسی نرم ہوا کو سونپ دیا ہے

لیکن بادل کی قسمت کیا

تیرے فراق کی گرمی مجھ کو پگھلا کر پھر آنسو کے اک قطرہ میں تبدیل کرے گی

تجھ کو چراغ نہیں کہہ سکتا

کیونکہ چراغ تو شام غریباں کے صحرا میں صبح وطن کا نقش قدم ہے

مجھ میں اتنا نور کہاں ہے

میں تو اک دریوزہ گر ہوں

سورج چاند ستاروں کے دروازوں پر دستک دیتا ہوں

ایک کرن دو

ایک دہکتا انگارہ دو

کبھی کبھی مل جاتا ہے

اور کبھی یہ دریوزہ گر خالی ہاتھ چلا آتا ہے

میں تو ایک دریوزہ گر ہوں

کلیوں کے دروازوں پر دستک دیتا ہوں

اک چٹکی بھر رنگ اور اسے خوشبو دے

لفظوں کا کشکول لیے پھرتا رہتا ہوں

کبھی کبھی کچھ مل جاتا ہے

اور کبھی یہ دریوزہ گر چاک گریباں پھولوں کو خود اپنے گریباں کا اک ٹکڑا دے آتا ہے 

تجھ کو خواب نہیں کہہ سکتا

خوابوں کا کیا

خزاں رسیدہ پتی کے مانند ہوا کی ٹھیس سے بھی ٹوٹا کرتے ہیں

لیکن میں بھی خواب نہیں ہوں

خواب تو وہ ہے جس کو کوئی دیکھ رہا ہو

میں اک دید ہوں

اک گیتا ہوں

اک انجیل ہوں اک قرآں ہوں

راہ گزر پر پڑا ہوا ہوں

سود و زیاں کی اس دنیا میں کسے بھلا اتنی فرصت ہے

مجھے اٹھا کر جو یہ دیکھے

مجھ میں آخر کیا لکھا ہے

تجھ کو راز نہیں کہہ سکتا

راز تو اکثر کھل جاتے ہیں

لیکن میں بھی راز نہیں ہوں

میں اک غمگیں آئینہ ہوں

میری نظموں کا ہر مصرعہ اس آئینہ کا جوہر ہے

آئینہ میں جھانک کر لوگ اپنے کو دیکھ رہے ہیں

آئینہ کو کس نے دیکھا

تو ہی بتلا تیرے لیے میں لاؤں کہاں سے اب تشبیہیں

جس تشبیہ کو چھوتا ہوں وہ جھجھک کے پیچھے ہٹ جاتی ہے

کہہ اٹھتی ہے

میں ناقص ہوں

جان تمنا

تیرا شاعر تیرے قصیدے کی تشبیب کی وادی ہی میں آوارہ ہے


راہی معصوم رضا     

No comments:

Post a Comment