وقت
وہ دِیروز کی شام
کب لوٹ کر آ سکی ہے
نظر جس کی امروز و فردا کے چہروں پہ مرکوز ہے
وہی اس سفر میں
افق زاد ہے
پرندے بھی مہمان ہیں موسم کے
جہاں ان کو پانی ملے
اڑ کے اس سمت جاتے ہیں
پیچھے پلٹ کر کبھی دیکھتے ہی نہیں
عجب یہ تمہارا سفر ہے
عجب یہ تمہاری نظر ہے
کہ صدیوں سے دِیروز کے اس کھنڈر پر لگی ہے
جہاں تم کو ملتے ہیں، تاریخ کے
پارہ پارہ سے بوسیدہ اوراق
جن کی نشانی فقط
وقت کے پاس ہے
سنو
وقت کی آنکھ ہے
وہ سب دیکھتا ہے
نظر میں اس کی
زمان و مکاں
ماورائے زمان و مکاں
وقت کے ہاتھ ہیں
وہ اپنے ہی ہاتھوں سے
شکلیں بناتا بھی ہے
اور شکلوں کو لمحوں میں تقسیم کر کے
پھینک دیتا ہے ان کو
ابد کے کنارے پہ ٹوٹی ہوئی
کشتیوں کی طرح
وقت کے پاؤں ہیں
وہ، چلتا ہے
گردش لگاتا ہے
بس، ایک ہی سمت میں
اُس کی رفتار ایسی ہے، جیسے کوئی
خواب میں
رات کو
دن سمجھ لے
وقت آواز ہے
وقت، احساس ہے
وقت، پتھر نہیں
وقت، سیل رواں
وقت محور ہے
جس پر زمیں چل رہی ہے
وقت، سورج ہے
کرنوں سے اپنی
زمیں کو رلاتا بھی ہے اور ہنساتا بھی ہے
وقت، بارش ہے
طوفاں اٹھاتا ہے
بیجوں کو، پھولوں، پھلوں تک کا سب فاصلہ
طئے کراتا ہے
وقت، سیلاب بن کر پہاڑوں کی چوٹی پر چڑھتا ہے
پانی میں رستہ بناتا ہے
آتش کو گلزار کرتا ہے
اور رات کی رات سوئی ہوئی بستیوں کو الٹتا ہے
وقت، موسم ہے
پت جھڑ کی صورت میں سارے درختوں کے پتے
گراتا بھی ہے
پھر انہیں
ایک نیا پیرہن بخش دیتا ہے
وقت، عادل ہے
انصاف کرتا ہے
راتوں میں وہ بھیس اپنا بدل کر نکلتا ہے
حاتم ہے
بن مانگے خیرات کرتا ہے
وقت قاتل بھی ہے
اور مسیحا بھی ہے
زخم دیتا بھی ہے
زخم بھرتا بھی ہے
وقت کو تم اگر جان لیتے
تو، یوں ریت میں منہ چھپاکر نہ روتے
زمیں کی کراہیں نہ سنتے
ابھی وقت ہے
اس کی آنکھوں میں جھانکو
نہ تم وقت کو قید ہی کر سکو گے
نہ تم وقت کے دائرے سے نکل کر
کہیں جاسکو گے
ازل اور ابد کے کنارے بھی
اک واہمہ ہیں
حقیقت تو یہ ہے
ازل اور ابد سے پرے
وقت کا دائرہ ہے
وہ دیروز کی شام
کب لوٹ کر آ سکی ہے
نظر جس کی امروز و فردا کے چہروں پہ مرکوز ہے!
وہی اس سفر میں
افق زاد ہے
غیاث متین
No comments:
Post a Comment