Saturday 17 October 2020

میں انتہائے یاس میں تنہا کھڑا رہا

 میں انتہائے یاس میں تنہا کھڑا رہا

سایہ مِرا شریکِ سفر ڈھونڈتا رہا

پھیلی تھی چاروں سمت سیاہی عجیب سی

میں ہاتھ میں چراغ لئے گھومتا رہا

یاد اس کی دور مجھ کو سرِشام لے گئی

میں ساری رات اپنے لیے جاگتا رہا

خود کو سمیٹ لینے کا انجام یہ ہوا

میں راستے پہ سنگ کی صورت پڑا رہا

کاغذ کی ناؤ گہرے سمندر میں چھوڑ کر

میں اس کے ڈوبنے کا سماں دیکھتا رہا

ٹھنڈی ہوا کے لمس کا احساس تھا عجیب

میں دیر تک شجر کی طرح جھومتا رہا


شاہد کلیم

No comments:

Post a Comment