رفو گری میں عبث چارہ گر لگے ہوئے ہیں
جو زخم تن پہ تھے روح پر لگے ہوئے ہیں
تمہارے پاؤں تلے سیپیاں چٹخ رہی ہیں
تمہارے تاج میں لعل و گہر لگے ہوئے ہیں
تُو ایسا کر، کہ سفینہ نکال کر لے جا
مجھے ڈبونے میں جب تک بھنور لگے ہوئے ہیں
یہ ہم جو عشق سے فارغ دکھائی دیتے ہیں
لگے ہوئے ہیں برنگِ دِگر لگے ہوئے ہیں
وہ جن کو بانجھ سمجھ کر میں بیچ آیا تھا
اب ان درختوں میں برگ و ثمر لگے ہوئے ہیں
کسے کسے میں سکھاؤں سلیقۂ پرواز
یہاں تو ہر کس و نا کس کو پر لگے ہوئے ہیں
صلہ ہے یہ تِرا ہم شکل ہونے کا شاہد
کہ تیرے جرم مِرے نام پر لگے ہوئے ہیں
شاہد ذکی
No comments:
Post a Comment