پہنچے کہاں سے کوئی تیرے خدوخال تک
روشن نہ ہو سکے جہاں شمعِ خیال تک
ہم وہ الم نصیب کہ خواہش کے باوجود
خوشیاں تو کیا ملا نہیں حرفِ ملال تک
اب طائرِ خیال قفس سے نکل پڑا
باقی اڑان اور ہے اس خوش جمال تک
صحرائے آرزو میں کہاں تک سفر کریں
لے آئے خود کو کھینچ کر حد وصال تک
کچھ لوگ یوں چراغِ انا سے جھلس گئے
باقی رہی نہ جسمِ تکبر پہ کھال تک
ہم وہ بلند قد ہیں کہ سولی گواہ ہے
بامِ عروج پر ہی رہے ارتحال تک
ریحان کیسے صید کرو گے غزل کو تم
جب تک نہ حرف آئیں گے دامِ خیال تک
ریحان اعظمی
No comments:
Post a Comment