خوشی سے کون بکتا ہے بصد آزار بکتے ہیں
ضرورت کے تحت بازار کے بازار بکتے ہیں
دکانوں پر کبھی سر کے لیے دستار بکتی تھی
بذاتِ خود یہاں اب صاحبِ دستار بکتے ہیں
یہ دنیا ہے یہاں ہر شے کا اپنا بھاؤ تاؤ ہے
جو باہر بک نہیں سکتے پسِ دیوار بکتے ہیں
کبھی منڈی میں بکتی تھی غلاموں کی سیہ بختی
مگر آزادگاں اب تو سرِ بازار بکتے ہیں
جو پیسہ خرچ کرتے ہیں، کہانی خود بناتے ہیں
کہانی اب نہیں بکتی فقط کردار بکتے ہیں
جو اپنی رائے رکھتے ہیں کسی قیمت نہیں بکتے
بہت سستے یہاں پر حاشیہ بردار بکتے ہیں
سلیم طاہر
No comments:
Post a Comment