مجھ کو فلک فلک نہیں، مجھ کو زمیں زمیں نہیں
محفلِ دو جہاں ہے ہیچ، ایک اگر تمہیں نہیں
زاہدِ مے پرست کو، ہم نے بھی تاڑ ہی لیا
اصل میں 'ہاں' سے کم نہیں اس کی یہ سب نہیں نہیں
یہ بھی ہے شانِ عاشقی، میرے خلوصِ عشق پر
سارے جہاں کو ہے یقیں، تم کو مگر یقیں نہیں
جذبۂ عشق کے لیے ذوقِ نظر بھی چاہیے
عشق کی سرحدوں سے دور حسن کی سرزمیں نہیں
سارے جہاں کا راز خود میرے دلِ حزیں میں ہے
سارے جہاں میں ہوں گے کیا آپ اگر یہیں نہیں
اس میں چمن کھلا ہوا، اس میں سحر سجی ہوئی
تیری جبیں جبیں سہی، میری جبیں جبیں نہیں
ہاں کے لطیف راز بھی ان کی نہیں میں ہیں نہاں
تاڑنے والے تاڑ لیں، ان کی نہیں نہیں نہیں
حسن کی بزمِ ناز میں، کون حریفِ ناز ہو
کوئی حریفِ ناز ہو، فرحتِ نکتہ چیں نہیں
فرحت کانپوری
No comments:
Post a Comment