Friday 16 October 2020

شہرِ آشوب

 شہرِ آشوب


صبحدم جو دیکھا تھا

کیا ہرا بھرا گھر تھا

ڈانٹتی ہوئی بیوی

بھاگتے ہوئے بچے

رسیوں کی بانہوں میں

جھولتے ہوئے کپڑے

بولتے ہوئے برتن

جاگتے ہوئے چولہے

مرغیوں کے ڈربے تھے

کابکیں تھیں، پنجرہ تھا

دور ایک کونے میں

سائیکل کا پہیہ تھا

بیس گز کے آنگن میں

سب ہی کچھ تو رکھا تھا

ایک پل میں یہ منظر

کیا بدل سا جاتا ہے

کچھ نظر نہیں آتا

بولتا ہے سناٹا

ایمبولینس ایدھی کی

بین کرتی آتی ہے

سب جلی کٹی لاشیں

ساتھ لے کے جاتی ہے

بچوں کی، بوڑھوں کی

عورتوں اور جوانوں کی

مسجدوں سے ہوتی ہیں

بارشیں اذانوں کی

لا الہ الا الله

لا الہ الا الله


زہرا نگاہ

No comments:

Post a Comment