ناقدو! وقت کی رفتار بدلنے کے لیے
میں نے مجبور زبانوں کو نوا بخشی ہے
کجکلاہوں کی رعونت کا اڑایا ہے مذاق
میں نے تاریخ کے چہرے کو ضیا بخشی ہے
سجنِ افرنگ کو لبیک کہی میں نے
اپنے اسلاف کے بے خوف چلن کی خاطر
نوجواں عمر کے دس سال گزارے میں نے
قید کی گود میں ناموس وطن کی خاطر
تم کبھی اپنے کئے پر بھی نظر ڈالو گے
تم نے کانٹوں کے عوض سرو و سمن بیچے ہیں
تم نے تاریخ کے سینے میں سناں گاڑی ہے
تم نے بے خوف شہیدوں کے کفن بیچے ہیں
بارہا سختئ قانون کا دل ڈوب گیا
میری للکار سے انگریزوں کے ایوانوں میں
اب میں اک تہمت بے جا کے سوا کچھ بھی نہیں
دس برس کاٹ کے پنجاب کے زندانوں میں
اور کچھ روز عزیزوں کا تماشا کر لو
ڈوب جائے گی، شبِ تار سویرا ہو گا
سرخ پرچم کی اڑانوں کا سہارا پا کر
رنگ محلوں میں فقیروں کا بسیرا ہو گا
آغا شورش کاشمیری
No comments:
Post a Comment