ہوا کو اور بھی کچھ تیز کر گئے ہیں لوگ
چراغ لے کے نہ جانے کدھر گئے ہیں لوگ
سفر کے شوق میں اتنے عذاب جھیلے ہیں
کہ اب تو قصدِ سفر ہی سے ڈر گئے ہیں لوگ
دھواں دھواں نظر آتی ہیں شہر کی گلیاں
سنا ہے آج سرِ شام گھر گئے ہیں لوگ
جہاں سے نکلے ہیں رستے مسافروں کیلئے
مکان ایسے بھی تعمیر کر گئے ہیں لوگ
کبھی کبھی تو جدائی کی لذتیں دے کر
رفاقتوں میں نیا رنگ بھر گئے ہیں لوگ
ملال ترکِ تعلق نہ جانے کیا ہوتا
خیال ترکِ تعلق سے مر گئے ہیں لوگ
غرور تند ہواؤں کا یوں بھی توڑا ہے
چراغ ہاتھ پہ رکھ کر گزر گئے ہیں لوگ
کوئی جواب نہیں فکر کی بلندی کا
زمیں پہ رہ کے بھی افلاک پر گئے ہیں لوگ
قریب تھے تو فقط واسطہ تھا آنکھوں سے
جدا ہوئے ہیں تو دل میں اتر گئے ہیں لوگ
وہ گیسوؤں کی گھٹا ہو کہ دار کا سایہ
جہاں بھی چھاؤں ملی ہے ٹھہر گئے ہیں لوگ
یہ اور بات کہ گھر بجھ گئے ہیں اے شاعر
مگر وطن میں چراغاں تو کر گئے ہیں لوگ
شاعر لکھنوی
No comments:
Post a Comment