گلشن کا ہر شجر مجھے مشکوک سا لگے
اب تو گلاب رنگ بھی مدقوق سا لگے
جدّت کے اس مقام پہ فائز ہوا ہوں میں
تازہ کلام بھی مجھے متروک سا لگے
سائل کو پیٹ کی اسے شہرت کی بھوک تھی
حاتم کا ذہن بھی مجھے مفلوک سا لگے
جب سے کیا ہے فیصلہ میں نے اڑان کا
ہر آدمی بھری ہوئی بندوق سا لگے
کس کے سپرد تُو نے کیا شہرِ آرزو
سپرا یہ پاسباں تو مشکوک سا لگے
تنویر سپرا
No comments:
Post a Comment