Friday, 16 October 2020

گلشن کا ہر شجر مجھے مشکوک سا لگے

 گلشن کا ہر شجر مجھے مشکوک سا لگے

اب تو گلاب رنگ بھی مدقوق سا لگے

جدّت کے اس مقام پہ فائز ہوا ہوں میں

تازہ کلام بھی مجھے متروک سا لگے

سائل کو پیٹ کی اسے شہرت کی بھوک تھی

حاتم کا ذہن بھی مجھے مفلوک سا لگے

جب سے کیا ہے فیصلہ میں نے اڑان کا

ہر آدمی بھری ہوئی بندوق سا لگے

کس کے سپرد تُو نے کیا شہرِ آرزو

سپرا یہ پاسباں تو مشکوک سا لگے


تنویر سپرا

No comments:

Post a Comment