میرے پیکر سے لپٹ کر میری ہستی جان لے
روح سے پہلے بدن کے رنگ بھی پہچان لے
کب تلک کرتا رہے گا حسنِ حاضر سے مفر
اے قلم! زلفِ تراشیدہ کی عظمت مان لے
بامِ شہرت پر غزل کے گُل سجانے کے لیے
تُو کسی نقرئی آواز کا گلدان لے
پھر فسادوں کی گھٹائیں آ رہی ہیں اس طرح
اپنے سر پر آشتی کا شامیانہ تان لے
جیت ہی کافی ہے تسکینِ انا کے واسطے
کون اک مغلوب سے تنویر اب تاوان لے
ظاہری نقصان میں بھی ہو گی کوئی بہتری
ضد نہ کر تنویر سِپرا ماں کا کہنا مان لے
تنویر سپرا
No comments:
Post a Comment